والدين كے كہنے پر بيوى كو طلاق دينے كا شرعى حكم كيا ہے ؟
والدين دليل يہ ديتے ہوں كہ وہ عورت ان كے پاس ايك ملازمہ اور خادمہ كى حيثيت سے كام كرتى تھى، اگر وہ طلاق نہ دے تو كيا يہ والدين كى نافرمانى شمار ہوگى، يہ علم ميں رہى كہ يہ بيوى اس وقت عزت و احترام كى زندگى بسر كر رہى ہے ؟
والدين كے كہنے پر بيوى كو طلاق دينا
سوال: 47040
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بلاشك و شبہ والدين كا حق بہت زيادہ ہے، اور سب لوگوں سے زيادہ والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آنا چاہيے، بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو والدين كے ساتھ حسن سلوك كا حكم تو اپنى عبادت كے ساتھ ذكر كيا ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور تيرے پروردگار كا يہ حكم ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ الاسراء ( 23 ).
اولاد پر والدين كى ہر اس معاملہ ميں اطاعت و فرمانبردارى واجب ہے جس ميں بچوں كو نقصان اور ضرر نہ ہو بلكہ والدين كا اس ميں فائدہ و نفع پايا جائے، ليكن جس ميں والدين كا كوئى نفع نہ ہو، يا پھر جس ميں اولاد كو نقصان و ضرر ہو تو پھر اس وقت والدين كى اطاعت واجب نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" معصيت كے علاوہ والدين كى اطاعت كرنا آدمى پر لازم ہے، چاہے والدين فاسق ہى ہوں…. يہ اس ميں ہے جب والدين كو اس سے فائدہ ہوتا ہو، اور بچے كو كوئى نقصان و ضرر نہ ہو " اھـ
ديكھيں: الاختيارات ( 114 ).
طلاق كے مباح اسباب كے بغير كسى سبب كى بنا پر طلاق دينا اللہ كو ناپسند ہے، كيونكہ اس ميں خاوند و بيوى جيسى نعمت كو ختم كرنا اور خاندان و گھر اور اولاد كو تباہى كى طرف لے جانا ہے.
اور اس ميں عورت پر ظلم بھى ہو سكتا ہے، اور پھر ماضى ميں عورت كا ملازمہ اور خادمہ رہنا كوئى ايسا شرعى سبب نہيں جس كى بنا پر اسے طلاق دى جا سكے، خاص كر جب وہ دينى اور اخلاقى طور پر مستقيم و صحيح ہو.
اس بنا پر اس بيوى كو والدين كے كہنے پر طلاق دينا واجب نہيں، اور نہ ہى اسے نافرمانى ميں شمار كيا جائيگا، ليكن بيٹے كو چاہيے كہ بيوى كو طلاق دينے كے مطالبہ كو بيٹا احسن طريقہ سے رد كرے، اور اس ميں نرم لہجہ اور طريقہ اختيار كرے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
نہ ت وانہيں اف كہو اور نہ ہى ان كى ڈانٹ ڈپٹ كرو، اور انہيں اچھى اور نرم بات كہو الاسراء ( 23 ).
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جب والد صاحب بيٹے سے مطالبہ كريں كہ وہ بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہوگا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب والد بيٹے كى بيوى كو طلاق دينے كا مطالبہ كرے تو اس كى دو حالتيں ہونگى:
پہلى حالت:
والد اسے طلاق دينے اور چھوڑنے كا شرعى سبب بيان كرے مثلا وہ كہے: " تم اپنى بيوى كو طلاق دے دو " كيونكہ اس كے اخلاق صحيح نہيں اس ميں شك ہے مثلا وہ مردوں سے تعلقات ركھتى ہے، يا پھر ايسے مقامات پر جاتى ہے جو صاف نہيں اس طرح كا كوئى سبب بيان كرے.
ت واس حالت ميں بيٹا اپنے والد كى بات مانتے ہوئے بيوى كو طلاق دے گا؛ كيونكہ اس نے اپنى خواہش كى بنا پر بيٹے كو طلاق دينے كا نہيں كہا، بلكہ اس ليے طلاق دينے كا كہا ہے تا كہ بيٹے كا بستر محفوظ رہے كہ كہيں وہ اس كے بستر كو گندا كر دے تو پھر اسے طلاق ديتا پھرے.
دوسرى حالت:
والد اپنے بيٹے كو كہے: اپنى بيوى كو طلاق دے دو كيونكہ بيٹا اپنى بيوى سے بہت زيادہ محبت كرتا تھا والد بيٹے كى اس محبت سے غيرت ميں آ گيا، اور پھر ماں تو زيادہ غيرت كرتى ہے كيونكہ بہت سارى مائيں جب ديكھتى ہيں كہ ان كا بيٹا اپنى بيوى سے محبت كرتا ہے تو وہ غيرت ميں آ جاتى ہيں حتى كہ بيوى كو اپنى سوكن سمجھنے لگ جاتى ہيں، اللہ تعالى سے سلامتى و عافيت كى دعا ہے.
اس حالت ميں بيٹے كے ليے والدين كے كہنے پر بيوى كو طلاق دينا لازم نہيں، ليكن اسے چاہيے كہ وہ والدين كى خاطر مدارت كرے اور اپنى بيوى كو اپنے پاس ہى ركھے طلاق نہ دے اور نرم لہجہ سے والدين كو الفت كے ساتھ راضى كرے كہ وہ اسے رہنے ديں، اور خاص كر جب بيوى دين و اخلاق كى مالك ہو.
امام احمد رحمہ اللہ سے بالكل ايسے ہى مسئلہ كے متعلق دريافت كيا گيا ايك شخص ان كے پاس آيا اور عرض كى ميرے والد صاحب مجھے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا كہتے ہيں ؟
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے كہا:
تم اسے طلاق مت دو.
وہ كہنے لگا: كيا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بيٹے سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا حكم ديا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس كا حكم نہيں ديا تھا ؟
تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمايا:
كيا تمہارا باپ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى طرح ہے ؟
اور اگر باپ اپنے بيٹے پر يہ دليل لے اور اسے كہے: بيٹے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو ان كے باپ عمر كے كہنے كے مطابق طلاق دينے كا حكم ديا تھا تو اس كا جواب يہى ہوگا كہ:
يعنى كيا تم عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى طرح ہو ؟
ليكن يہاں بات ميں نرمى اختيار كرتے ہوئے يہ كہنا چاہيے كہ: عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كوئى ايسى چيز ديكھى تھى جو طلاق كى متقاضى تھى اور مصلحت اسى ميں تھى كہ وہ بيٹے كو كہيں كہ اسے طلاق دے دے.
اس مسئلہ كے متعلق بہت زيادہ سوال ہوتا ہے تو اس كا جواب يہى ہے " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 671 ).
مستقل فتاوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
والدہ اپنى شخصى ضرورت كى بنا پر بيوى كو طلاق دينے كا مطالبہ كرتى ہے يہ مطالبہ نہ تو دينى عيب كى بنا پر ہے اور نہ ہى كسى شرعى سبب كى وجہ سے اس مطالبہ كا حكم كيا ہو گا؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا سائل نے بيان كيا ہے كہ اس كى بيوى مستقيم ہے اور دين والى ہے اور وہ اس سے محبت بھى كرتا ہے، اور بيوى كو قيمتى سمجھتا ہے، اور اس نے اس كى والدہ كے ساتھ برا سلوك نہيں كيا، بلكہ والدہ نے اپنى شخصى ضرورت كى بنا پر اسے ناپسند كرنا شروع كر ديا ہے، اور وہ اپنى بيوى كو اپنے ساتھ ركھتا ہے اور يہ نكاح ختم نہيں كرتا تو اس ميں اس كے ليے والدہ كى اطاعت كرنا لازم نہيں.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا صحيح فرمان ہے:
" اطاعت و فرمانبردارى تو نيكى و معروف ميں ہے "
اس بنا پر اسے اپنى والدہ كى زيارت كر كے اور اس سے نرم لہجہ ميں بات چيت كر كے اور اس كے اخراجات برداشت كر كے صلہ رحمى كرنى چاہيے، جس چيز كى وہ محتاج اور ضرورتمند ہے وہ پورى كرے جس سے والدہ كا سينہ ٹھنڈا ہو اور اسے اچھا لگے ليكن وہ اپنى بيوى كو طلاق مت دے، باقى اعمال كرے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 29 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب