0 / 0
7,92302/02/2010

كيا كسي خيراتى تنظيم جو يتيموں كي كفالت كرتى ہو كو مال دينے وال شخص بھي يتيم كي كفالت كرنے والا شمار ہو گا

سوال: 47190

ميں ايك خيراتى تنظيم ميں ايك يتيم كى كفالت كرتا اور تنظيم كو ماہانہ دو سو ريال ادا كرتا ہوں جو تنظيم كے ذريعہ يتيم كي والدہ كو ديا جاتا ہے ميں مال كي ادائيگي كے علاوہ بچے كي كسي بھي چيز كا مسؤل نہيں، تو كيا يہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اس حديث كے تحت شمار ہو گا: ميں اور يتيم كي كفالت كرنے والا جنت ميں ہونگے" اس بارہ ميں ميرى راہنمائى فرمائيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول :

يتيم كي كفالت ان اعمال صالحہ ميں سے ہے جو شريعت اسلاميہ نے ہمارے لئے مندوب قرار ديا ہے اور يہ بتايا ہے كہ يہ جنت ميں داخل ہونے كا سبب بلكہ جنت كے اعلى درجات كے حصول كا باعث ہے، اور مومن كو اس كا شوق دلانے كے لئے نبي صلى اللہ عليہ وسلم كا مندرجہ ذيل فرمان ہي كافى ہے:

" ميں اور يتيم كي كفالت كرنے والا جنت ميں اس طرح ہونگے اور انہوں نے اپني درميانى اور شہادت كي انگلى كے ساتھ اشارہ كيا" صحيح بخاري حديث نمبر ( 5304 ).

ابن بطال رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جس نے بھي حديث سنى اس كا حق ہے كہ اس حديث پر عمل كرے تاكہ وہ جنت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي رفاقت حاصل كرسكے ) اسے ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے فتح البارى ميں نقل كيا ہے ديكھيں: فتح البارى ( 10/ 436 ) .

دوم :

يتيم پر مال خرچ كرنے كے متعلق خصوصى حديث وارد ہوئى ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا يہ مال بڑا ميٹھا اور پيارا ہے لھذا وہ مسلمان اچھا اور بہتر ہے جس نے اس مال سے مسكين اور يتيم اور مسافر كو ديا" او كما قال النبى صلى اللہ عليہ وسلم . صحيح بخاري حديث نمبر ( 1465 ) صحيح مسلم ( 1052 ).

ليكن يتيم پر يہ مال خرچ كرنا ہى مكمل كفالت نہيں جو شريعت نے ہمارے لئے مندوب كي اور اسے سرانجام دينے والے كو جنت ميں يہ عظيم مرتبہ دينے كا وعدہ كيا ہے بلكہ يہ اس كي ايك حصہ اور نوع ہے، اور مكمل كفالت يہ ہے كہ يتيم كي ديكھ بھالل اور اس كي دينى اورديناوى مصلحت كا خيال كرنا اور اس كي تربيت و پرورش اور يتيمى ختم ہونے تك اس كے ساتھ حسن سلوك كرنا شامل ہے.

ابن اثير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يتيم كي كفالت كرنے والا شخص وہ ہے جو اس كي تربيت كرے اور اس كے معاملات كي ديكھ بھال كرے. ديكھيں: النھايۃ ( 4 / 192 ) .

اورجب امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب رياض الصالحين ميں يتيم كي كفالت كرنے والے شخص كي تعريف كرتے ہوئے يہ كہا كہ وہ اس كے معاملات كي ديكھ بھال كرنے والا ہے، تو اس كي شرح كرنے والا يہ كہتا ہے:

( دينى اور دنياوى امور ميں يتيم كي ديكھ بھال كرنا اور وہ اس كا نفقہ اور لباس وغيرہ برداشت كر كے ). ديكھيں: دليل الفالحين ( 3 / 103 ) .

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( يتيم كي كفالت يہ ہے كہ: اس كي دنياوى اور دينى اصلاح كے كام كرنا جس سے اس كے دين كي بھي اصلاح ہو اور اس كي دنيا كي بھي اس كے د ين كي اصلاح اس كي تربيت اور پرورش اور تعليم وتعلم اور راہنمائى وغيرہ كركے، اور اس كي دنيا كي اصلاح اس كا كھانا پينا اور رہائش كا انتظام كرنے سے ہوگي ) ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 5 / 113 ) .

اور يتيم كي كفالت كے معنى ميں يتيم كي دينى اصلاح اور اس كي تربيت اس كے دنياوى اور مادي مصلحتوں سے كم نہيں بلكہ يہ اولى ہيں، جس طرح باپ كا اپنے بچوں كي تربيت كرنا اور انہيں ادب سكھانا صرف ان پر خرچ كرنے سے زيادہ عظيم ہے اسي طرح يہاں بھي .

شيخ ابن سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جس طرح جب انہيں تم كھلاؤ پلاؤ اور انہيں لباس پہناؤ اور ان كے جسم كي تربيت كرو تو تمہيں اس پر اجروثواب حاصل ہو گا، اسي طرح بلكہ اس سے بھي بڑھ كر يہ ہے جب آپ ان كے دلوں اور ان كي روحوں كي نفع مند علوم اور سچے معارف اور اخلاق حميدہ اور اس كے خلاف كاموں سے بچنے كي راہنمائى كرو تو اس پر اجروثواب حاصل ہو گا ) ديكھيں: بھجۃ قلوب الابرار ( 128 ) .

يتيم كي حقيقى كفالت يہ ہے كہ اس كي تربيت اپنے بيٹے كي طرح كي جائے اور اس پر شفقت اور نرمى كرنے ميں كسي قسم كى كمى اور كوتاہى نہ ہو اسے اچھا ادب سكھايا جائے اور اس كي تعليم بھي اچھى ہو. ديكھيں: فيض القدير للمناوى ( 1 / 108 ) .

اور عراقى رحمہ اللہ تعالى نے اس سے يہ نكالا ہے كہ يہ معنى ہي جنت ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كي مرافقت كا راز ہے ان كا كہنا ہے كہ:

( يتيم كي كفالت كرنے والے كا … لگتا ہے كہ اس ميں حكمت يہ ہے ، جنت ميں اس كے مرتبہ كي نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے قرب يا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تشبيہ اس لئے دى گئى ہے كہ نبى كي شان يہ ہے كہ وہ ايسى قوم كي طرف مبعوث ہوتا ہے جو اپنے دينى معاملات كي سمجھ بوجھ نہيں ركھتے تو نبى ان كي كفالت كرنے والا اور ان كا معلم اور راہنما ہوتا ہے، اور اسي طرح يتيم كي كفالت كرنے والا بھى اس كي كفالت كرتا ہے جو اپنے دينى م معاملات كي سمجھ بوجھ نہيں ركھتا، بلكہ وہ اپنے دنياوى معاملات سے بھى بے خبر ہوتا ہے تو وہ اس كي راہنمائى كرتا اور اسے دين سكھاتاہے اور اس كي تربيت كركے ادب سكھاتا ہے ) اسے حافظ رحمہ اللہ تعالى نے فتح البارى ميں نقل كيا ہے. ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 437 ) .

پھر صرف خرچہ پر ہي اكتفا كرنا اور خاص كر يہ كہ جگہ كي دورى ہو تو بندہ كے دل كي نرمى اور ضروريات پورى كرنے كےاسباب ميں سے ايك سبب سے محروم رہتا ہے وہ يہ كہ يتيم پر شفقت اور نرمى اور اسے اپنے ساتھ ملانا، حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يتيم كے نزديك ہو اور اس كے سر پر ہاتھ ركھو، اور اپنے كھانے ميں سے اسے كھلاؤ كيونكہ يہ تمہارے دل ميں نرمى پيدا كرے گا اور تمہارى ضرورت كا پا لےگي" ديكھيں: السلسلۃ الصحيحۃ ( 854 ) .

حاصل يہ ہوا كہ يتيم كي كفالت كا سب سے اعلى ترين مقام اور درجہ يہ ہے كہ اسے اپنے بچوں ميں ملائے اور ان كي تربيت جيسى ہي يتيم كي بھي تربيت كرے اور جس طرح اپنےبچوں پر خرچ كرتا ہے اس پر بھي اسي طرح خرچ كرے.

اور اگر كفالت كرنے والے كے پاس اتنا مال نہيں كہ وہ يتيم كو كافى ہو، يا پھر يتيم كے پاس مال ہو جس سے وہ مسغنى ہو سكتا ہے، اور اس شخص نے اسے اپنى اولاد ميں ملا ليا تو اگرچہ يہ پہلے درجہ سے كم ہے ليكن كفالت كے معانى اور عظيم مقاصد ميں سے ہے.

حتى كہ امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں :

( يہ فضيلت تو اسے حاصل ہوتى ہے جو اپنے مال سے يتيم كي كفالت كرے يا پھر شرعى ولى ہونے كے ساتھ يتيم كے مال سے ہى اس كي كفالت كرے ) اسے ابن علان نے دليل الفالحين ( 3 / 104 ) ميں نقل كيا ہے.

لھذا اگر انسان كے پاس اتنا مال ہو كہ وہ يتيم پر خرچ كرے جيسا كہ سوال كرنے والے كي حالت ہے، تو يہ بھى ان شاء اللہ خيروبھلائى ہى ہے، اور يہى كافى ہے كہ وہ مال ودولت اور اس پر كنجوسى اور بخل كے فتنہ سے محفوظ ہو گيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي شرط كو ادا كرديا.

فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" جس نے اس مال ميں سے مسكين، يتيم اور مسافر كو ديا"

ليكن يہ يتيم كي مكمل كفالت نہيں جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي جنت ميں مرافقت ملنے كا وعدہ كيا گيا ہے، اور ہو سكتا ہے اخلاص نيت اور اردہ كي سچائى كي بنا پر وہ كچھ حاصل ہو جائے جو عمل كرنے سے رہ گيا ہو.

انس رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك غزوہ ميں تے تو آپ نے فرمايا:

" ہمارے پيچھے مدينہ ميں كچھ لوگ ايسے بھي ہيں جس وادى اور گھاٹى ميں بھي ہم گئے وہ ہمارے ساتھ تھےانہيں عذر نے روك ليا" صحيح بخاري حديث نمبر ( 2839 )

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android