ليلۃ القدر كس طرح بسر كي جائے؛ كيا نوافل ادا كيے جائيں يا قرآن مجيد كي تلاوت اور سيرت نبوي كا مطالعہ كيا جائے اوروعظ ونصيحت كرتے ہوئے مسجد ميں ليلۃ القدر كا جشن منايا جائے ؟
ليلۃ القدر كا جشن منانا اورعبادت كرنا
سوال: 48965
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان المبارك كےآخري عشرہ ميں نماز ، اور قرآن مجيد كي تلاوت اور دعا ميں اتنا اہتمام كرتے تھے جو اس كےعلاوہ كسي اورايام ميں نہيں تھا، امام بخاري اور مسلم رحمہ اللہ تعالي نے عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے بيان كيا ہےكہ :
( جب آخري عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم رات كوجاگتے اور اپنے گھروالوں كو بھي جگاتے اور كمر كس ليتےتھے )
اور مسند احمد اور مسلم كي روايت ميں ہے:
( نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم آخري عشرہ ميں اتني كوشش وجھد كرتے جتني كسي اور دنوں ميں نہيں كرتے تھے )
دوم :
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايمان اور اللہ تعالي سے اجروثواب حاصل كرنے كي نيت سے ليلۃ القدر كا قيام كرنےپر ابھارا اور ترغيب دلائي ہے .
ابوھريرہ رضي ا للہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
( جس نےبھي ايمان اور احتساب كےساتھ ليلۃ القدر كا قيام كيا اس كے پہلےتمام گناہ معاف كردئے جاتےہيں ) ابن ماجۃ كےعلاوہ ايك جماعت نےاسے روايت كيا ہے.
لھذا يہ حديث ليلۃ القدر كي رات قيام كركےبسر كرنےپر دلالت كرتي ہے.
سوم :
ليلۃ القدر ميں كہنےكےليے سب سے بہتردعاء وہ ہے جونبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےعائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كو سكھائي :
عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں ميں نےرسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كوكہا مجھےيہ بتائيں كہ اگرمجھےكسي رات كا علم ہوجائے كہ يہ ليلۃ القدر ہے توميں اس رات ميں كونسي دعاء مانگوں؟
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: تم يہ دعاء كرو ( اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ) اے اللہ يقينا تو معاف كرنےوالا اور معافي كوپسند فرماتا ہے مجھےمعاف فرما دے .
اسے ترمذي نےصحيح سند كےساتھ روايت كيا ہے.
چہارم :
اوررمضان المبارك كي كسي رات كومخصوص كركےكہنا كہ يہ ليلۃ القدر ہے اس كے ليے كسي ايسي دليل كي ضرورت ہے جواس كي تخصيص كرتي ہو ليكن اتني بات ضرور ہےكہ آخري عشرہ كي طاق راتيں باقي راتوں سے ليلۃ القدر ہونے كي زيادہ احري اور اولي ہيں اور ان ميں سے بھي ستائسويں رات كے چانس زيادہ ہيں اس ليے كہ اس كےبارہ ميں متعدد احاديث وارد ہيں .
پنجم:
اور رہا مسئلہ بدعات پر عمل كرنے كا تواس كےبارہ ميں گزارش يہ ہے كہ نہ تو رمضان المبارك ميں ہي بدعات جائزہيں اور نہ ہي كسي دوسرے مہينہ ميں كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
( جس نے بھي ہمارے اس دين ميں كوئي ايسا عمل ايجاد كرليا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے ) اور ايك دوسري روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
( جس نے بھي كوئي ايسا كام كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تووہ عمل مردود ہے ) .
لھذا رمضان المبارك كي بعض راتوں ميں جو جشن تقريبات منائي جاتي ہيں ہمارے علم ميں تواس كي كوئي دليل نہيں ہے، اور سب سے بہتر طريقہ اور عمل محمد صلي اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور راہ ہے ، اور امور ميں سب سے برا عمل بدعات كي ايجاد ہيں .
اللہ سبحانہ وتعالي ہي توفيق بخشنےوالا ہے .
ماخذ:
فتاوي اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 413 )