مجھے کچھ آیات میں ایسا ملتا ہے کہ اللہ کے بندوں میں صرف اہل ایمان ہی شامل ہیں، مثلاً: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا ترجمہ: رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں۔ [الفرقان: 63] جبکہ دیگر آیات میں نظر آتا ہے کہ تمام لوگ ہی اللہ کے بندے ہیں، مثلاً: فرمانِ باری تعالی ہے: إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا ترجمہ: آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سبھی رحمن کے پاس عبد بن کر آنے والے ہیں۔ [مریم: 93] تو ہم ان دونوں آیتوں کو کیسے سمجھیں؟
اللہ تعالی اپنی اطاعت گزاری کے لیے آپ کی رہنمائی فرمائے، عبدیت دو قسم کی ہوتی ہے، خاص عبدیت اور عام عبدیت۔
خاص عبدیت درج ذیل ہے:
یہ عبدیت محبت، اطاعت گزاری اور فرمانبرداری والی عبدیت ہے کہ جس کے ذریعے انسان عظمت و شرف پاتا ہے، تو جہاں کہیں قرآن کریم میں انسان کی عبدیت کے ذریعے عزت افزائی کی گئی ہے وہاں پر یہی خاص عبدیت مراد ہے، مثلاً: فرمانِ باری تعالی ہے: اَللهُ لَطِيْفٌ بِعِبَادِهِ ترجمہ: اللہ تعالی اپنے بندوں کے بارے میں بہت باریک بین ہے۔[الشوری: 19] اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا ترجمہ: رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں۔ [الفرقان: 63] تو یہ عبدیت صرف اللہ تعالی کے اطاعت گزار مومنوں کے ساتھ خاص ہے، ان میں ایسے کفار شامل نہیں ہوتے جو کہ اللہ تعالی کی شریعت کو تسلیم ہی نہیں کرتے، اور اللہ تعالی کے احکامات و نواہی کی پاسداری نہیں کرتے۔ اس عبدیت کے درجات بھی الگ الگ ہوتے ہیں، سب کا درجہ ایک ہی نہیں ہوتا چنانچہ انسان جس قدر اللہ سے محبت کرنے والا ہو گا ، اللہ تعالی کے احکامات کا پابند ہو گا، اللہ تعالی کی شریعت پر چلنے ولا ہو گا تو اس شخص میں اللہ تعالی کی عبدیت بھی اتنی ہی زیادہ پائی جائے گی۔
اب اس مقام کو حاصل کرنے والے افراد میں سب سے پہلے انبیائے کرام اور رسول آتے ہیں، اور پھر ان تمام انبیائے کرام میں سے مطلق طور پر ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس مقام کے سب سے بلند درجے کے حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے خالصتاً "عبد" کا مقام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی کو بھی نہیں دیا، حتی کہ ایسے مقامات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو "عبد" کے وصف سے متصف فرمایا ہے جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان بیان کرنا مقصود ہے، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل کرنے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا ترجمہ: سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اپنے عبد پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔ [الکہف: 1] ایسے ہی سفر معراج کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک حصے میں اپنے عبد کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی۔[بنی اسرائیل: 1] ایسے ہی اللہ تعالی کو پکارنے کے لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا ترجمہ: اور جب اللہ کا بندہ اللہ کو پکارنے کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ اس پر ٹوٹ پڑیں۔ [الجن: 19] اس کے علاوہ بھی دیگر آیات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو "عبد" سے متصف کیا گیا ہے۔
تو انسان کے لیے سب سے بڑے شرف کی بات ہی یہ ہے کہ انسان حقیقی معنوں میں اللہ تعالی کا "بندہ" بننے کا اہل قرار پائے، اور یہ اہلیت تبھی ملتی ہے جب انسان مکمل طور پر اللہ تعالی کا سوالی ہو، اور تمام مخلوقات سے بالا تر ہو کر ان سے بالکل مستغنی ہو جائے، اب کامل طور پر اللہ تعالی کا سوالی تبھی ہو گا جب اللہ تعالی سے محبت، اللہ تعالی کا خوف، اور اللہ تعالی کے فضل و ثواب کی امید انسان میں پیدا ہو، ان تینوں میں سے کوئی بھی چیز کم ہوئی تو درجہ کمال حاصل نہیں ہو گا۔
عام عبدیت:
اس معنی کے اعتبار سے کوئی بھی مخلوق عبدیت سے باہر نہیں ہے، اسی لیے اسے جبری عبدیت بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس مفہوم میں تمام مخلوقات اللہ کی غلام ہیں، اللہ تعالی کا ان میں حکم چلتا ہے، ان پر اللہ کا فیصلہ ہی نافذ ہوتا ہے، کوئی بھی اپنے لیے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے، انسان کو نفع یا نقصان وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے، اس مفہوم میں عبدیت کا تذکرہ سوال میں مذکور دوسری آیت میں ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے: إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا ترجمہ: آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سبھی رحمن کے پاس عبد بن کر آنے والے ہیں۔ [مریم: 93] اس عبدیت کی وجہ سے کسی کو کوئی شرف اور فضل حاصل نہیں ہوتا، لہذا اگر کوئی شخص عبدیت کے خاص مفہوم سے روگرداں ہو تو عبدیت کے عمومی مفہوم میں وہ شامل ہوتا ہے، اس سے باہر جانے کی کوئی صورت ہی نہیں ہے! کیونکہ تمام مخلوقات اللہ کی غلام ہیں، اگر کوئی اللہ تعالی کو اپنے اختیار سے معبود نہیں مانتا تو وہ جبری طور پر اللہ تعالی کے احکامات کا پابند ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما لے، اور اپنا مقرب بنا لے، یقیناً وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب: "العبودیہ" کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم