ميرے والد صاحب فراش ہيں، اور انہيں كئى ايك بيمارياں لاحق ہيں بعض اوقات اپنى عقل بھى كھو بيٹھتے ہيں اور بعض اوقات و اپنا مال اور روپے گننا شروع كر ديتے ہيں، اسى طرح وہ دين كو بہت زيادہ برا كہتے ہيں، ان كى نظر بھى كمزور ہو چكى ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ بالكل نہيں سن سكتے اور بستر پر ہى اكثر پيشاب كر كے زمين پر پھينك ديتے ہيں اور جب ہم ان كے پاس جا كر دريافت كريں تو كبھى انكار كر ديتے ہيں اور كبھى كچھ.
ايك بار ميرى والدہ نے وضو كيا تو والد صاحب نے انہيں آواز دى جب وہ گئى تو والد نے ان پر پيشاب چھڑك ديا والدہ نے انہيں ڈانٹا اور منع كيا تو والد صاحب كہنے لگے ميں تجھے طلاق دے دونگا، اور كچھ دير كے بعد كہنے لگے: تجھے طلاق.
برائے مہربانى ہميں يہ بتائيں كہ كيا يہ طلاق ہو گئى ہے يا نہيں ؟
اور ہم والد صاحب كے ساتھ كيا سلوك كريں كيونكہ وہ بہت ہى برى حالت كو پہنچ چكے ہيں جو ناقابل برداشت ہے كيا ہم انہيں اولڈ ہاؤس ميں جمع كرا ديں ؟
والد بڑھاپے كى بنا پر بہكى باتيں كرنا لگا اور اسى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دى تو كيا يہ طلاق واقع ہو جائيگى اور كيا وہ باپ كو اولڈ ہاؤس ميں داخل كرا ديں ؟
سوال: 49719
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ كے والد كے تصرفات سے تو يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ بڑھاپے كى بنا پر اس مرحلہ پر پہنچ گئے ہيں جس ميں آ كر شرعى تكليفات ساقط ہو جاتى ہيں، اس ليے انہيں نہ تو نماز كى ادائيگى كا حكم ديا جائيگا، اور نہ ہى روزہ ركھنے كا، اور نہ ہى ان كى قسم واقع ہوگى اور نہ ہى نذر اور طلاق.
اور اگر آپ لوگ ان كے تصرفات اور معاملات پر صبر و تحمل كر سكتے ہيں تو اس ميں بہت اجروثواب ہے آپ ضرور صبر سے كام ليں، اور اگر آپ ايسا نہيں كر سكتے تو پھر آپ كے ليے انہيں اولڈ ہاؤس جہاں بوڑھے اشخاص كى ديكھ بھال كى جاتى ہے لے جانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن وہاں داخل كرانے كے بعد آپ مستقل طور پر انہيں ديكھنے ضرور جايا كريں، اور ان كى مالى و معنوي اور باقى ضروريات بھى حسب استطاعت پورى كريں.
اور يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو وصيت كى ہے كہ والدين كے ساتھ حسن سلوك كريں، اور خاص كر جب وہ بوڑھے ہو جائيں كيونكہ انہيں اس وقت ديكھ بھال كى شديد ضرورت ہوتى ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے والدين كو ڈانٹنے اور ان كے ساتھ برا فعل اور قول كے ساتھ برا سلوك كرنے سے منع فرمايا ہے حتى كہ اف كا لفظ بھى كہنے سے منع كيا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تيرا پروردگار صاف صاف حكم دے چكا ہے كہ تم اس كے سوا كسى اور كى عبادت نہ كرنا، اور ماں باپ كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آنا، اگر تيرى موجودگى ميں ان ميں سے كوئى ايك يا دونو بڑھاپے كو پہنچ جائيں تو ان كے آگے اف تك نہ كہنا، نہ انہيں ڈانٹ ڈپٹ كرنا، بلكہ ان كے ساتھ ادب و احترام سے بات چيت كرنا
اور عاجزى اور محبت كے ساتھ ان كے سامنے تواضع كا بازو پست ركھے ركھنا، اور دعا كرتے رہنا كہ اے ميرے پروردگار ان پر ويسا ہى رحم كر جيسا انہوں نے ميرے بچپن ميں ميرى پرورش كى ہے الاسراء ( 23 – 24 ).
شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى نے حقوق اللہ كى ادائيگى كے بعد والدين كے حقوق ادا كرنے كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ .
يعنى والدين كے ساتھ ہر معاملہ ميں احسان كروا ور حسن سلوك سے پيش آؤ چاہے وہ قول ہو يا فعل كيونكہ والدين ہى بندے كے وجود كا سبب ہيں، اور والدين كو اپنے بيٹے كى محبت اور حسن سلوك كا حق ہے كہ بيٹا اپنے والدين كے ساتھ محبت كرے اور ان سے حسن سلوك كے ساتھ پيش آئے، اور يہ قرب حق كى تاكيد اور نيكى و احسان كے وجوب كا متقاضى ہے.
پھر فرمايا:
اگر تمہارى موجودگى ميں ان ميں سے كوئى ايك يا وہ دونوں بڑھاپے كى عمر كو پہنچ جائيں .
يعنى: جب وہ بڑھاپے كى اس عمر كو پہنچ جائيں جس ميں اعضاء كمزور ہو جاتے ہيں اور وہ دونوں نرمى و حسن سلوك كے محتاج ہوتے ہيں جو كہ معروف ہے تو
انہيں اف كے الفاظ تك بھى نہ كہو .
كيونكہ يہ بھى تكليف دہ ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس چھوٹى سى اذيت والى چيز كو ذكر كر كے يہ بتايا ہے كہ والدين كو ادنى سى بھى تكليف نہيں دينى چاہيے.
اور نہ ہى ان كى ڈانٹ ڈپٹ كرو .
يعنى: انہيں مت ڈانٹ پلاؤ اور ان كے ساتھ سخت كلامى سے مت پيش آؤ.
اور انہيں اچھى اور نرم بات كہو .
يعنى والدين كے ساتھ ايسے لہجہ اور الفاظ ميں بات كرو جسے وہ پسند كريں، اور ان كے ساتھ بات چيت كرنے ميں ادب و احترام كو ملحوظ ركھو، اور والدين كے ساتھ بات كرتے ہوئے نرم لہجہ ركھ كر اچھى بات كرو جو ان كے دلوں كو لذت دے اور ان كے دل مطمئن ہو جائيں، اور يہ چيز اوقات اور حالات مختلف ہونے سے مختلف ہو گى.
اور ان كے ليے عاجزى و انكسارى كے بازو پست كيے ركھو .
يعنى: ان كے سامنے عاجزى كرتے ہوئے تواضع اور نرمى اختيار كرو تا كہ تمہيں اجروثواب حاصل ہو، اس ليے نہيں كہ تم ان دونوں سے خوفزدہ ہو يا پھر ان سے اميد ركھتے ہو اس طرح كے دوسرے مقاصد جن كى بنا پر بندے كو اجروثواب حاصل نہيں ہوتا.
اور ان كے ليے يہ دعا كرتے رہا كرو اے ميرے پررودگار ان دونوں پر رحم فرما .
يعنى: ان كے ليے ان كى زندگى ميں بھى اور فوت ہونے كے بعد بھى رحمت كى دعا كرتے رہا كرو، تا كہ بچپن ميں انہوں نے جو آپ كى تربيت كى تھى اس كى جزاء دے سكو.
اس سے يہ سمجھ آتى ہے كہ جتنى تربيت زيادہ ہوگى والدين كا حق بھى اتنا ہى زيادہ ہو جائيگا، اور اسى طرح اگر والدين كى بجائے كوئى اور شخص كسى كى تربيت و پرورش كا ذمہ دار بنتا ہے تو اسے تربيت كا حق ادا كرنا چاہيے ”
ديكھيں: تفسير السعدى ( 407 – 408 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب