ميرے بھائى نے مجھ سے پانچ ہزار ريال اور ميرى بہن نے پانچ سو ريال قرض لے ركھے ہيں، ميں ہميشہ رمضان المبارك ميں زكاۃ نكالتا ہوں، تو كيا ميں اس قرض كى زكاۃ بھى نكالوں؟
اور كيا ميں زكاۃ كى يہ رقم روزہ افطارى فنڈ ميں يا پھر دعوتی سینٹر كے ليے وقف كردہ بلڈنگ ميں صرف كر سكتا ہوں ؟
قرض كى زكاۃ كا حكم، اور كيا وہ مال كے علاوہ نكالنا ہو گى ؟
سوال: 50014
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
دائمی فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے كہ:
اگر مقروض شخص تنگ دست ہو يا پھر تنگ دست تو نہيں ليكن وہ قرض كى ادائيگى ميں ليت و لعل سے كام ليتا ہے، اور قرض خواہ شخص اس سے اپنا قرض وصول نہیں کرسکتا،کہ يا تو اس كے پاس اتنے ثبوت نہيں كہ وہ قاضی كے سامنے ثابت کر کے اپنا قرض واپس لے سكے، يا پھر اس كے پاس ثبوت تو ہيں ليكن ايسا حكمران نہيں ہے جو اسے اس كا حق واپس لے كر دے، جيسا كہ اس وقت بعض ممالك ميں ہے كہ حقوق كى كوئى حفاظت كرنے والا نہيں، تو اس صورت ميں قرض خواہ شخص پر اس وقت ہی زکاۃ واجب ہوگی جب اسے اپنا مال واپس لئے ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔
اور اگر مقروض شخص تنگ دست نہ ہو بلكہ مال والا ہے، اور اس سے قرض واپس لينا ممكن بھى ہو تو جب بھى اس پر سال گزرے اور وہ قرض بذاتہ نصاب تك پہنچے يا اسے دوسرے مال كے ساتھ ملانے پر نصاب پورا ہوتا ہو تو قرض خواہ پر اس كى زكاۃ ہر سال واجب ہے۔
ديكھیں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 191 )
دوم:
جس شخص كے مال ميں زكاۃ واجب ہو چكى ہو تو اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ غیر شرعى مصارف میں زكاۃ كا مال صرف كرے، بلكہ اسے صرف شرعى مصارف ميں ہى صرف كرنا ہو گا، اور يہ شرعى مصارف سوال نمبر ( 6977 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں۔
لہذا زكاۃ كا مال روزہ افطارى كے ليے استعمال نہيں كيا جا سكتا، اور نہ ہى دعوتی سینٹر كے ليے وقف كردہ بلڈنگ ميں صرف ہو سكتی ہے، كيونكہ یہ زكاۃ كے آٹھ مصارف ميں شامل نہيں ہے جن کی اللہ تعالى نے [سورۃ التوبۃ كى آيت نمبر ساٹھ ميں ] تحدید کی ہے۔
اور مساجد، اور مدارس كى تعمير ميں زكاۃ ادا كرنے كے عدم جواز كے كئى ايك جوابات گزر چكے ہيں، اور اسى طرح قرآن مجيد كى نشرو اشاعت ميں بھى جائز نہيں، لہذا آپ سوال نمبر ( 13734 ) اور ( 21797 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات