ايك شيشہ فيكٹري جہاں عطر كي بوتليں اور شمع دان وغيرہ بنتےہيں اور انہيں دوسرے ممالك ميں فروخت كيا جاتا ہے، مجھے يہ اشياء باہر بھيجنے كا انچارج بنانے كي پيش كش كي گئي ہے، ليكن فيكٹري مجھ سے يہ مطالبہ كرتي ہے كہ نصاري كےكرسمس كےتہوار كےموقع پر كچھ خاص تحفے تيار كروں مثلا صليبيں اور مجسمہ جات ، تو كيا يہ كام كرنا جائزہے، اس ليے كہ اللہ تعالي نےمجھے قليل علم سےنوازا اور قرآن مجيد حفظ كرنے كي سعادت بخشي ہے جس كي بنا پر ميں اللہ تعالي سےاس معاملہ ميں ڈرتا ہوں ؟
كيا كفار كےتہواروں كےمتعلقہ تحفے فروخت كرنا جائز ہيں ؟
سوال: 50074
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كسي بھي مسلمان كےلئے كفار كےتہواروں ميں شركت كرنا جائز نہيں چاہے وہ شركت وہاں ان كےساتھ حاضر ہو كر كي جائےيا پھر ان كےليے وہ تہوار منانا ممكن بنايا جائےيا كوئي ايسي چيز اور سامان فروخت كيا جائے جس كا ان كےاس تہوار سے تعلق ہو يہ سب كچھ ناجائز ہے.
شيخ محمد بن ابراھيم رحمہ اللہ تعالي نے وزير تجارت كو يہ ليٹر لكھا جس ميں انہوں يہ مندرجہ ذيل كلمات كہے:
محمد بن ابراہيم كي طرف سے جناب وزيرتجارت حفظہ اللہ كي جانب:
السلام عليكم ورحمۃاللہ وبركاتہ:
وبعد:
ہميں بتايا گيا ہے كہ پچھلےبرس كچھ تاجروں نے عيسائيوں كےليے سال نو كےموقع پر خاص طور پر ان كےاس تہوار كےلئے باہر سے كچھ ہديےوغيرہ منگوائے اور ان ہديہ جات ميں عيسائي تہوار ( كرسمس ) كا درخت بھي شامل تھا، اور كچھ مقامي لوگ ہمارے اس ملك ميں ان كےتہوار ميں شركت كرنے كےلئے اسے خريد كر اجنبي عيسائيوں كويہ پيش بھي كرتے رہے ہيں.
اور يہ ايك منكر اوربرا ہے اور ان كےلائق نہيں تھا كہ وہ ايسا كام كريں اور ہميں اس ميں كوئي شك نہيں كہ آپ اس كےناجائزہونے كاعلم ركھتے ہيں، اوريہ بھي علم ركھتےہيں كہ اہل علم اس پر متفق ہيں كہ اہل كتاب اورمشركين كےتہواروں ميں شركت كرنے سے پرہيز كرنا اور بچنا چاہئے.
اس لئے ہم آپ سےيہ اميد ركھتےہيں كہ آپ اس طرح كےہديہ جات اور ان اشياء كو جو ان كےتہواروں ميں اسعمال ہوتي ہيں انہيں ملك ميں لانے سے منع كرنے كا حكم جاري كرينگے.
ديكھيں: فتاوي الشيخ محمد بن ابراہيم ( 3 / 105 ) .
شيخ بن باز رحمہ اللہ تعالي كو مندرجہ ذيل سوال پوچھا گيا:
كچھ مسلمان عيسائيوں كےتہواروں ميں شركت كرتےہيں آپ اس بارہ ميں كيا راہمائي كريں گے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:
كسي بھي مسلمان مرد يا عورت كےلئے نصاري يا يہوديوں يا دوسرے كفار كےتہواروں ميں شركت كرنا جائز نہيں ہے، بلكہ اسے ترك كرنا واجب اور ضروري ہے، اس ليے كہ " جس نےبھي كسي قوم كي مشابھت اختيار كي وانہيں ميں سےہے " اور رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ہميں ان كي مشابہت كرنے سے ڈرايا ہے اور ان كےاخلاق اخيتار كرنے سے منع فرمايا ہے.
اس لئے مومن مرد و عورت كو چاہئے كہ وہ اس سے بچ كر رہے، اور كسي مرد اور عورت كےلئے يہ جائزنہيں كہ وہ ان كےتہواروں ميں كسي بھي طرح كا تعاون كرے كيونكہ يہ تہوار غير شرعي اور اور شريعت اسلاميہ كےمخالف ہيں، لہذا ان ميں كسي بھي قسم كي شركت كرنا جائز نہيں ، اور نہ ہي ان تہواروں كو منانےوالوں سے كوئي تعاون كرنا جائزہے، اور نہ ہي ان كا كسي بھي طرح سے مساعدہ اورمدد كرني جائز ہے نہ تو چائےاور قہوہ بنا كراور نہ ہي اس كےعلاوہ كسي اور چيز كےساتھ مثلا برتن وغيرہ .
اور اس لئےبھي كہ اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:
اور تم نيكي اور تقوي كےكاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور گناہ اور برائي كےكاموں ميں تعاون نہ كرو او اللہ تعالي سےڈر جاؤ يقينا اللہ تعالي بہت سخت سزا دينےوالا ہے
لہذا كفار كے تہواروں ميں كسي بھي طرح كي شركت كرنا گناہ اور برائي كےكاموں ميں تعاون كي ايك قسم ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوي الشيخ ابن باز ( 6 / 405 ) .
صدي كےتہواروں ميں شركت كےمتعلق مستقل فتوي كميٹي كےعلماء كا بيان ہے:
ششم : مسلمان كےلئے كفار كےتہواروں ميں كسي بھي طرح كا تعاون كرنا جائز نہيں ہے، اور اس ميں : ان كےتہواروں كو مشہور كرنا، اور اس كا اعلان كرنا، اور ان تہواروں ميں اس نئي صدي كا تہوار بھي شامل ہے، اور كسي بھي وسيلہ اور طريقہ سے ان تہواروں كي دعوت ديني جائز نہيں،چاہے وہ پرنٹ ميڈيا كےذريعہ ہو يا اليكٹرانك ميڈيا كےذريعہ يا كوئي بھي وسائل اعلام كے ذريعہ ہو، يا رقمي تختياں اور گھڑياں نصب كركے، يا پھر يادگاري كپڑے اور دوسري يادگاري اشياء جاري كرنا، يا سكولوں كي كاپياں اور كارڈ چھاپنے، يا تجارتي ريٹوں ميں كمي كركےسيل لگانا يا مالي انعامات ركھنے، يا كھيلوں كا انعقاد كرنا، يا اس كي كوئي خاص علامت نشر كرنا. اھ
تواس بنا پر ميرے بھائي آپ كےلئے ايسي اشياء تيار كرنےميں شركت كرني جائز نہيں جو ان كےتہواروں ميں استعمال ہوتي ہوں، بلكہ آپ اللہ تعالي كےلئے اس ملازمت كو ترك كرديں، ان شاء اللہ اللہ تعالي آپ كو اس سے بہتر اور اس كا نعم البدل عطا فرمائےگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب