ميرى بيوى حاملہ تھى چار ماہ اور تين ہفتے بعد بچہ ماں كے پيٹ ميں ہى فوت ہو گيا، ہمارے ذمہ كيا كرنا واجب ہے كيا اس كا نام ركھا جائے، اور كيا اس كا عقيقہ كيا جائے، اور اگر اس كے علاوہ بھى كچھ ہے تو آپ اس سلسلہ ميں ہمارا تعاون كريں ؟
چوتھے ماہ كا حمل ضائع ہونا اور اس كا نام ركھنا اور كفن و غسل دے كر نماز جنازہ ادا كرنا
سوال: 50106
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
چار ماہ كے بعد ساقط ہونے والے حمل ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ہمارے علماء و مشائخ كا يہ فتوى ہے كہ اس كا نام ركھا جائيگا، اور اس كو غسل و كفن دے كر اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، اور وہ مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور اس كا عقيقہ بھى كيا جائيگا.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
آپ كے علم ميں لانا چاہتا ہوں كہ ميرى بيوى كا فوت ہونے سے قبل چار ماہ كا حمل ساقط ہو گيا تھا، ميں نے اس نماز جنازہ ادا كيے بغير ہى دفن كر ديا، آپ سے گزارش ہے كہ اگر ميرے ذمہ كچھ لازم آتا ہے تو معلومات فراہم كريں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق جب وہ چار ماہ كا تھا چاہيے تو يہ تھا كہ اس كو غسل اور كفن دے كر اس كا نماز جنازہ ادا كيا جاتا، اس كى دليل ابو دواد ترمذى وغيرہ كى عمومى حديث ہے:
مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ساقط شدہ كى نماز جنازہ ادا كى جائے "
ليكن مطلوب فوت ہو چكا ہے، اس ليے آپ پر كوئى چيز لازم نہيں آتى "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 406 ).
اور كميٹى كے علماء كا يہ بھى كہنا ہے:
" اگر اس كے چار ماہ پورے نہيں ہوئے تو اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى اور نہ ہى اس كا عقيقہ كيا جائيگا؛ كيونكہ اس ميں روح ہى نہيں پھونكى گئى تھى "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 408 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا چھوٹا بچہ جو پيدا ہونے سے قبل ہى ساقط ہو جائے اس كا عقيقہ ہو گا يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جو چار ماہ سے قبل ساقط ہو جائے تو اس كا عقيقہ نہيں اور نہ ہى اس كا نام ركھا جائے اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، بلكہ وہ كسى بھى جگہ زمين ميں دفن كر ديا جائيگا.
ليكن جو چار ماہ كا ہو چكا ہو تو اس ميں روح پھونكى جا چكى ہوتى ہے، چنانچہ اس كا نام بھى ركھا جائيگا اور اس كو كفن بھ ديا جائيگا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا ہو گى اور مسلمانوں كے قبرستان ميں بھى دفن كيا جائيگا، اور ہمارى رائے ميں اس كا عقيقہ بھى كيا جائيگا.
ليكن بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ: اس كا عقيقہ اس وقت تك نہيں ہو گا جب تك كہ وہ پيدا ہونے كے بعد سات يوم تك زندہ نہ رہے، ليكن صحيح يہى ہے كہ اس كا عقيقہ كيا جائيگا، كيونكہ وہ روز قيامت اٹھائيگا تو وہ اپنے والدين كى سفارش كريگا "
ديكھيں: اسئلۃ الباب المفتوح سوال نمبر ( 653 ).
دوم:
اس بچہ كے ساتھ جو خون آتا ہے وہ نفاس كا خون ہے تو اس مدت ميں عورت نماز اور روزہ ترك كريگى، اور خاوند كے ليے جماع كرنا بھى حرام ہو گا، جب عورت نے ايسا حمل ساقط كيا جس كى خلقت واضح ہو چكى ہو تو يہ نفاس كا خون شمار كيا جائيگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم كہتے ہيں: اگر وہ حمل اس حالت ميں ساقط ہو كہ اس كى خلقت اور شكل انسان كى بن چكى ہو تو اس كے خارج ہونے كے بعد خارج ہونے والا خون نفاس كا خون شمار ہو گا، اس ميں عورت نہ تو نماز ادا كريگى اور نہ ہى روزہ ركھےگى، اور نہ ہى خاوند اس سے جماع كريگا حتى كہ وہ پاك ہو جائے، اور اگر حمل غير مخلق ہو يعنى اس كى خلقت اور شكل واضح نہ ہوئى ہو تو اس كا خون فاسد شمار ہو گا، عورت نماز روزہ سے نہيں ركےگى "
اہل علم كہتے ہيں: كم از كم مدت جس ميں خلقت اور شكل واضح ہو جاتى ہے وہ اكياسى ( 81 ) دن كا حمل ہے "
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 304 – 305 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 37784 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات