مسلمان روزہ ركھنے ميں متحد كيوں نہيں حالانكہ رمضان كا چاند تو ايك ہى ہے؟
اور زمانہ قديم ميں تو وسائل اعلام كى كمى كى بنا پر يہ مشكل تھا ؟
مسلمان روزہ ركھنے ميں متحد كيوں نہيں ؟
سوال: 50487
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مختلف ممالك ميں رمضان المبارك كى ابتدا كے غالب اسباب چاند كے مطلع كا اختلاف ہے، اور چاند كے مطلع كا اختلاف حسى اور عقلى طور پر ضرور معلوم ہے.
تو اس بنا پر يہ ممكن ہى نہيں كہ مسلمانوں كو ايك ہى وقت ميں روزہ ركھنے پر مجبور كيا جائے، كيونكہ اس كا معنى يہ ہوا كہ ان ميں سے ايك جماعت كو چاند نظر آنے سے قبل ہى روزہ ركھنے پر مجبور كيا جائے، بلكہ چاند طلوع ہونے سے قبل ہى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
امت مسلمہ كو روزہ ميں وحدت اختيار كرنے اور چاند كے سب مطلع كو مكہ مكرمہ كے مطلع سے مربوط كرنے كى آواز اٹھانے والے شخص كے بارہ ميں كيا حكم ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" فلكى اعتبار سے ايسا كرنا مستحيل ہے؛ كيونكہ اہل فلكيات كے ہاں چاند كے مطلع جات مختلف ہيں، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے.
اور پھر جب يہ مطلع ہى مختلف ہے تو اثرى اور نظرى دلائل كا تقاضا بھى يہى ہے كہ ہر ملك اور علاقے كے ليے حكم عليحدہ ہو.
اثرى دليل:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
تم ميں سے جو كوئى بھى ماہ رمضان پائے تو وہ اس كے روزے ركھے البقرۃ ( 185 ).
اگر فرض كيا جائے كہ زمين كے آخرى كونہ ميں رہائش پذير لوگوں نے اسے ـ يعنى چاند ـ كو نہيں ديكھا، اور اہل مكہ نے چاند ديكھ ليا ہے تو اس آيت ميں ان لوگوں كو كيسے خطاب كيا جا سكتا ہے جنہوں نے چاند ديكھا ہى نہيں ؟ !
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" چاند ديكھ كر روزہ ركھو، اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر مناؤ "
متفق عليہ.
لھذا جب اہل مكہ چاند ديكھ ليں تو مثال كے طور پر ہم اہل پاكستان اور ان كے بعد مشرق ميں بسنے والے دوسرے ممالك كے لوگوں پر روزہ ركھنا كيسے لازم كريں، حالانكہ ہميں يہ علم بھى ہے كہ ان كے ہاں چاند طلوع نہيں ہوا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے رؤيت ہلال كے ساتھ معلق كيا ہے.
اور رہى نظرى دليل تو يہ صحيح قياس ہے جس كا معارضہ كرنا ممكن ہى نہيں، ہميں علم ہے كہ مشرقى جہت ميں مغربى جانب سے قبل فجر طلوع ہوتى ہے، لہذا جب مشرقى جانب فجر طلوع ہو چكى ہو تو كيا ہم پر لازم ہے كہ ہم سحرى كھانا بند كرديں، حالانكہ ہمارے ہاں تو ابھى رات ہے ؟
اس كا جواب نفى ميں ہے، اور جب مشرقى جانب سورج غروب ہو جائے تو ہمارے ہاں ابھى دن ہوتا ہے تو كيا ہمارے ليے روزہ افطار كرنا جائز ہے؟
اس كا جواب بھى نفى ميں ہے، تو پھر چاند بھى بعينہ سورج كى طرح ہے، چاند كى توقيت ماہانہ ہے، اور سورج كى يومى، جس اللہ سبحانہ وتعالى نے يہ فرمايا ہے:
اور تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ رات كے سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
اسى اللہ جل شانہ كا يہ بھى فرمان ہے:
جو شخص اس ماہ مبارك كو پائے اسے اس كے روزے ركھنا چاہئے البقرۃ ( 185 ).
تواس طرح اثرى اور نظرى دليل كا تقاضا يہى ہے كہ ہم روزہ اور عيد كے متعلق ہر جگہ اور ملك كے ليے خاص حكم بنائيں، اور اسے حسى علامت كے ساتھ مربوط كريں جسے اللہ تعالى نے اپنى كتاب، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى سنت ميں بنايا ہے، جو كہ چاند يا سورج يا فجر كا پايا جانا ہے. انتہى
ماخوذ از: فتاوى اركان الاسلام صفحہ ( 451 ).
اور شيخ رحمہ اللہ تعالى نے اس قياس كى وضاحت اور مطلع كے مختلف ہونے كا اعتبار كرنے والوں كى دليل كى تائيد كرتے ہوئے كہا:
" ان كا كہنا ہے: اور ماہانہ توقيت يومى توقيت كى طرح ہے، تو جس طرح روزانہ كى سحرى اور افطارى ميں ممالك مختلف ہيں، اسى طرح يہ بھى واجب ہے كہ ماہانہ سحرى اور افطارى ميں بھى مختلف ہوں، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ بالاتفاق مسلمانوں كے ہاں يومى اختلاف كا اثر ہے، جو لوگ مشرق ميں بستے ہيں وہ مغرب ميں بسنے والے لوگوں سے قبل سحرى بند كرتے ہيں، اور افطارى بھى ان سے قبل ہى كرتے ہيں.
لہذا جب ہم يومى توقيت ميں مطلع كے اختلاف كا حكم لگاتے ہيں، تو پھر ماہانہ توقيت بھى بالكل اسى طرح ہے.
اور كسى قائل كے ليے يہ كہنا ممكن نہيں كہ:
اللہ تعالى كا فرمان :
اور تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ صبح كا سفيد دھاگہ رات كے سياہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جب اسطرف سے رات آ جائے اور يہاں سے دن جاتا رہے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار نے روزہ افطار كر ليا "
كسى كے ليے يہ كہنا ممكن نہيں كہ: يہ سب اور ہر جگہ بسنے والے مسلمانوں كے ليے عام ہے.
اور اسى طرح ہم مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كے عموم ميں يہى كہيں گے:
جو كوئى بھى تم ميں سے ماہ رمضان كو پائے تو وہ اس كے روزے ركھے .
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم اسے ( يعنى چاند ) كو ديكھو تو روزے ركھو اور جب اسے ديكھو تو عيد الفطر مناؤ "
اور يہ فرمان جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں كہ لفظى مقتضى اور نظر صحيح كے اعتبار سے اس كى قوت ہے، اسى طرح صحيح قياس كے اعتبار سے بھى، وہ ماہانہ توقيت كا يومى توقيت پر قياس ہے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى رمضان جمع و ترتيب اشرف عبد المقصود ( 104 ).
كبار علماء كميٹى كا ايك بيان بھى اس كے متعلق جارى ہوا ہے جسے ذيل ميں بيان كيا جاتا ہے:
" اول:
چاند كا مطلع كا اختلاف ايسے امور ميں سے ہے جو حسى اور عقلى طور پر ضرورى معلوم ہيں، اور اس ميں علماء كرام ميں سے كسى ايك نے بھى اختلاف نہيں كيا، بلكہ مسلمان علماء كرام كے ہاں مطلع كے اختلاف كے اعتبار اور عدم اعتبار ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
دوم:
مطلع كے اختلاف كا اعتبار يا عدم اعتبار ان نظرياتى مسائل ميں سے ہے جن ميں اجتہاد كى مجال ہے، اور علم اور دين ركھنے والوں كے ہاں اس ميں اختلاف موجود ہے، اور يہ اس جائز اختلاف ميں سے ہے جس پر صحيح اجتھاد كرنے والے كو دوہرا اجر حاصل ہو گا، ايك تو اجتھاد كا اجر اور دوسرا صحيح ہونے كا، اور غلطى كرنے والے كو بھى اجر حاصل ہو گا جو كہ اجتھاد كا اجر ہے.
اس مسئلہ ميں علماء كرام كے دو مختلف قول ہيں:
كچھ علماء كرام تو مطلع كے اختلاف كا اعتبار كرتے ہيں، اور كچھ علماء كرام اسے معتبر نہيں سمجھتے، اور ہر ايك فريق نے كتاب و سنت كے دلائل پيش كيے ہيں، اور بعض اوقات دونوں فريق ايك ہى نص سے استدلال كرتے ہيں اور وہ اس سے استدلال كرنے ميں مشترك ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
لوگ آپ سے چاند كے متعلق سوال كرتے ہيں آپ كہہ ديجئے كہ يہ لوگوں ( كى عبادت ) كے وقتوں اور حج كے موسم كے وقت جاننے كے ليے ہيں البقرۃ ( 189 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" چاند ديكھ كر روزہ ركھو، اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر مناؤ " الحديث.
اور يہ نص كى فہم ميں اختلاف اور ہر ايك گروہ كا طريقہ استدلال ميں اختلاف كى بنا پر ہے.
كميٹى نے جن اعتبارات كو ديكھا اور مقدر كيا ہے انہيں ديكھتے ہوئے اور يہ ديكھتے ہوئے كہ اس مسئلہ ميں اختلاف كے آثار ايسے نہيں جن كا انجام خطرناك ہو، اس دين پر چودہ صدياں گزر چكى ہيں، جس ميں ہميں كوئى بھى ايسا وقت نہيں ملتا جس ميں امت اسلاميہ رؤيت ہلال ميں ايك رؤيت پر متحد ہوئى ہو كبار علماء كميٹى كے اعضاء كے خيال ميں معاملہ اسى طرح رہنا چاہيے جس پر وہ رہى ہے، اور اس موضوع ميں اتنى بحث نہيں ہونى چاہيے اور ہر اسلامى حكومت كو اپنے علماء كرام كے واسطہ سے يہ اختيار ہونا چاہئے كہ وہ اس مسئلہ ميں رائے اختيار كرے، كيونكہ ہر ايك كے دلائل ہيں.
سوم:
كميٹى كى مجلس حساب و كتاب سے چاند كے ثبوت كے مسئلہ ميں يہ ديكھتى ہے، اور كتاب و سنت ميں جو كچھ وارد ہے، اور مجلس نے اس كے متعلق اہل علم كى كلام كو ديكھتے ہوئے يہ بالاتفاق يہ فيصلہ كيا ہے كہ:
شرعى مسائل ميں چاند كا ثبوت ستاروں كے حساب سے معتبر نہيں ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تك چاند نہ ديكھ لو روزہ نہ ركھو، اور جب تك چاند نہ ديكھ لو عيد الفطر نہ مناؤ " الحديث
اور اس معنى ميں دوسرے دلائل كى بنا پر. انتہى
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 102 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب