اول: ماں کے اپنی اولاد پر حقوق:
ماں کے اپنی اولاد پر بہت زیادہ حقوق ہیں انہیں شمار میں لانا ممکن نہیں، تاہم ان میں سے کچھ ہم ذکر کرتے ہیں:
- دل و جان کے ساتھ جس قدر ممکن ہو سکے ماں سے محبت اور ماں کا احترام ؛ کیونکہ ماں سب سے زیادہ حسن سلوک کی حق دار ہے۔
اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: (اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) اس حدیث کو بخاری: (5626) اور مسلم: (2548) نے روایت کیا ہے۔
نیز ماں نے ہی تمہیں اپنے پیٹ میں حفاظت کے ساتھ اٹھائے رکھا، اپنے سینے سے تمہیں دودھ پلایا، اس لیے ماں کی محبت لازمی چیز ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، بلکہ فطرت بھی اسی کی متقاضی ہے، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ بچوں کی ماں سے اور ماؤں کی بچوں سے محبت تو جانوروں اور چوپاؤں میں بھی اللہ تعالی نے فطری طور پر رکھی ہے، اس لیے انسان میں ان سے بھی زیادہ ہونی چاہیے جبکہ مسلمان میں انسانوں سے بھی زیادہ ہونی چاہے۔
- اگر ماں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو والدہ کا مکمل خیال رکھا جائے، بلکہ یہ تو اولاد کے ذمہ قرض ہے؛ کیونکہ جب اولاد چھوٹی تھی تو ماں نے ہی اس کی ہر چیز کا خیال رکھا تھا، ماں ہی بچوں کی وجہ سے تکالیف جھیلا کرتی تھی اور راتوں کو جاگتی تھی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے لیے حسن سلوک کی تاکیدی نصیحت کی ؛ کہ ماں نے اسے دوران حمل تکلیف جھیل کر اٹھائے رکھا اور زچگی کے دوران بھی تکلیف اٹھائی۔[الأحقاف: 15]
بلکہ اگر جہاد والدین کی خدمت میں رکاوٹ بنے تو جہاد کی بجائے والدین کی خدمت کو بسا اوقات مقدم رکھا جائے گا۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور جہاد کے لیے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے استفسار فرمایا: (کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟) تو اس نے کہا: جی ہاں، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں کی خدمت میں جد و جہد کر) اس حدیث کو بخاری: (2842) اور مسلم: (2549) نے روایت کیا ہے۔
- والدہ کو ایسی کوئی بات نہ کہیں جسے سن کر انہیں تکلیف ہو یا کوئی اقدام ایسا نہ کریں جسے وہ ناگوار سمجھیں۔
اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ توں انہیں اف تک نہ کہہ ۔ [الإسراء: 23]
تو اگر "اُف" کہنا حرام ہے تو انہیں تکلیف پہنچانے کا کیا حکم ہو گا؟!!
- اگر مالی طور پر والدہ کا ہاتھ تنگ ہو، اور ان کے اخراجات اٹھانے کے لیے ان کا خاوند بھی نہ ہو، یا خاوند تو ہو لیکن مالی استطاعت نہ ہو تو ان کے اخراجات برداشت کریں، بلکہ نیک لوگوں کے ہاں ماں کے کھانے پینے اور دیگر اخراجات اپنے بچوں کے اخراجات سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
جیسے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تین آدمی پیدل چلے جا رہے تھے کہ بارش ہونے لگی ، اس پر انہوں نے پہاڑ میں ایک غار کی پناہ لی، تو اچانک ان کے غار کے منہ پر ایک چٹان آ گری [جس سے غار کا منہ بند ہو گیا]، اس پر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم اپنے انتہائی نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو، اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی : اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے اونچی آواز میں رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ ۔۔" اس حدیث کو بخاری: (2102) اور مسلم: (2743) نے روایت کیا ہے۔
- والدہ اگر کسی جائز کام کا حکم دے تو ان کے حکم کی تعمیل کی جائے، لیکن اگر کسی برائی کا حکم دے جیسے کہ شرکیہ کام وغیرہ کا تو یہ قاعدہ ہے کہ جہاں خالق کی نافرمانی ہو وہاں مخلوق کا حکم نہیں مانا جائے گا۔
اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت رکھنا۔ [لقمان: 15]
- والدہ کی وفات کے بعد والدہ کے ذمے کفارے ادا کرنا، ان کی طرف سے صدقہ کرنا، حج یا عمرہ کرنا وغیرہ سنت سے ثابت عمل ہیں۔
جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ: (جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہو گئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کرو؛ کیونکہ تم خود ہی دیکھو کہ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اس قرض کو ادا کرتی؟ اسی طرح اللہ کا حق بھی ادا کرو؛ کیونکہ اللہ کے حق کو ادا کرنا زیادہ لازمی ہے) اس حدیث کو بخاری: (1754) نے روایت کیا ہے۔
- اسی طرح ان کی وفات کے بعد ان تمام لوگوں سے تعلقات کو بحال رکھیں جن کے ان کے ساتھ تعلقات اور رشتہ داری تھی، مثلاً: والدہ کے عزیز و اقارب اور سہیلیاں وغیرہ۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (والدین کے ساتھ بہترین سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ جب والد رخصت ہو جائے تو اُس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔) اس حدیث کو مسلم: (2552) نے روایت کیا ہے۔
دوم: آپ کے والدہ پر حقوق:
- بچپن میں آپ کی تمام تر ضروریات کا خیال رکھنا آپ کو اپنا دودھ پلانا، اور مکمل دیکھ بھال کرنا۔ ویسے شروع دن سے یہ بات متواتر حد تک معروف ہے کہ لوگ فطری طور پر ان چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
اسی کے متعلق فرمایا: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو ۔[البقرة: 233]
- آپ کی اچھی تربیت کریں، کل قیامت کے دن ان سے آپ کی تربیت کے بارے میں پوچھا جائے گا؛ کیونکہ آپ اپنی والدہ کے ماتحت ہیں، اور والدہ آپ کی سرپرست ہیں۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ حکمران نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا) ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ: ( انسان اپنے باپ کے مال کا نگران ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور سب سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ ) اس حدیث کو بخاری: (853) اور مسلم: (1829) نے روایت کیا ہے۔
سوم:
ایسے معاملات جن میں آپ خود مختار ہیں آپ کی والدہ ان میں دخل اندازی نہیں کر سکتیں ان میں تمام مباح کام آتے ہیں، چنانچہ مباح امور میں والدہ کو دخل اندازی کی اجازت نہیں، آپ اپنی مرضی کی چیزیں کھا پی سکتے ہیں، اسی طرح لباس اور سواری وغیرہ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
جبکہ آپ کے گھر میں آنے جانے اور رات کو دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے متعلق یہ ہے کہ: والدین دونوں ہی مل کر اپنے بچوں کی مکمل اور کڑی نگرانی کریں، تا کہ وہ بری صحبت کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں؛ کیونکہ نوجوانوں کو خراب کرنے کے لیے برے دوست بہت زیادہ کردار ادا کرتے ہیں، اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: (انسان اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر ایک دیکھ لے کہ کسے دوست بنا رہا ہے) اس حدیث کو امام ترمذی: (2387) اور ابو داود: (4833) نے روایت کیا ہے۔
نیز اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے جبکہ امام نووی نے اسے صحیح کہا ہے ، جیسے کہ تحفۃ الاحوذی : (7/ 42) میں موجود ہے۔
والدین اپنے بیٹے کے گھر واپس آنے کا وقت دیکھیں کہ کب آتا ہے اور کہاں جاتا ہے؛ کیونکہ والدین کے لیے اپنے بچے کو کھلی چھٹی دے کر رکھنا جائز نہیں ہے، اور اگر بچہ راہ راست پر نہیں ہے تو نگرانی کی مزید ضرورت بڑھ جاتی ہے۔
آپ کو چاہیے کہ آپ والدین کے مقام و مرتبے کا خیال رکھیں، اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے رہیں، چاہے والدین کی جانب سے آپ پر مباح چیزوں کے متعلق سختی کیوں نہ کی جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے چاہے والدین مشرک ہوں اور شرک کی دعوت دیتے ہوں؛ تو جو والدین اپنے تئیں صرف خیر کی باتوں کا ہی ہمیں حکم دیتے ہیں ، ان کے ساتھ حسن سلوک تو مزید ضروری ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بسا اوقات والدین کی باتوں میں مباح چیزوں کے متعلق ہمیں سختی محسوس ہوتی ہے۔ تو ایسے میں بہتر یہی ہے کہ آپ والدین کی اطاعت کریں، آپ وہی کریں جو وہ چاہتے ہیں، اگرچہ ان کی رغبت اور میلان کا خیال رکھنا آپ پر واجب نہیں ہے لیکن پھر بھی قربانی اور ایثار کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ان کی بات کو ترجیح دیں؛ کیونکہ آپ کے حسن سلوک کے اولین حق دار آپ کے والدین ہیں۔ نیز اللہ تعالی نے والدین کی اطاعت کو اپنی عبادت کا حکم دینے کے فوری بعد ذکر اسی لیے کیا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت اجاگر ہو۔
چہارم:
آپ کے متعلق والد کی ذمہ داری میں جو کچھ بھی آتا ہے ان تمام امور میں حتمی فیصلہ بھی والد کا ہی ہو گا، لہذا ان امور میں والد کی بات حرف آخر ہو گی، مثلاً: کس تعلیمی ادارے میں والد نے اپنے ایسے بچے کو تعلیم دلانی ہے جس کے اخراجات وہ خود برداشت کر رہا ہے، اسی طرح ایسی کوئی بھی سرگرمی جس کا تعلق والد کی ملکیتی چیزوں سے ہو مثلاً والد کی سواری استعمال کرنا، یا والد کے پیسوں میں سے پیسے لینا وغیرہ ان میں بھی حتمی بات والد کی ہو گی۔
جبکہ بڑا بیٹا جو اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے اور اپنا خرچہ بھی خود اٹھا رہا ہے تو اس کی اپنی رائے اپنے بارے میں حتمی ہو گی، لہذا وہ اللہ کی جانب سے جائز کردہ چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے، تاہم بیٹے کو بھی شرعاً چاہیے کہ والد کو بھی راضی رکھے بشرطیکہ والد کی رضا مندی اللہ تعالی کی اطاعت سے متصادم نہ ہو۔ اسی طرح بیٹا کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے اپنے والد کی عزت اور ان کا احترام لازمی کرے، یہ والدین کے ساتھ حسن سلوک میں شامل ہے، جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: "میں کبھی اس مکان کی چھت پر نہیں چڑھا جس میں میرے والد صاحب ہوں"
اسی طرح اگر والد اپنے بیٹے کو کسی اچھے کام کا حکم دیں یا کسی مباح چیز کو ترک کرنے کا حکم دیں تو اگر اس کی تعمیل کرنے کی وجہ سے بیٹے کا نقصان نہ ہو تو بیٹے کو والد کی بات ماننی چاہیے۔
پنجم:
آپ اپنی والدہ کو کیسے بتلائیں کہ آپ مزید خود مختاری چاہتے ہیں؟ تو یہ آپ زبانی کلامی اور عملی طور پر بتلا سکتے ہیں:
- عملی طور پر اس طرح کہ: آپ عملاً اور حقیقی معنوں میں یہ ثابت کریں کہ اب آپ بچے نہیں رہے، بلکہ آپ بڑے ہو گئے ہیں اور ذمہ داری نبھانا جانتے ہیں، آپ اپنی والدہ کے سامنے کامل مردوں جیسے کام کر کے دکھائیں، تو جب آپ کی والدہ تسلسل کے ساتھ آپ کی ذمہ دارانہ کارکردگی دیکھیں گی تو آپ پر اعتماد کرنے لگے گی اور آپ سے وہ بڑوں جیسا تعامل ہی کریں گی ، اس طرح آپ کا معاملہ حل ہو جائے گا۔
- زبانی کلامی اس طرح کہ: آپ نرمی کے ساتھ واضح دلائل ، مثبت بات چیت اور اپنے صحیح موقف اختیار کرنے کے واقعات ذکر کر کے اس چیز کا اظہار کر سکتے ہیں، اللہ تعالی سے قوی امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی والدہ کو آپ کے ساتھ عاقل، بالغ، سمجھدار اور کامل مرد جیسا تعامل کرنے کی توفیق دے۔
ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے اور آپ کے والدین کے لیے دعا گو ہیں کہ ہمیں صحیح سمت عطا فرمائے، اور ہمارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ و سلم – پر درود نازل فرمائے۔
واللہ اعلم