نماز تراويح كب شروع ہونگى: كيا يكم رمضان كى رات ( چاند نظر آنے كى رات يا شعبان پورا ہونے والى رات ) يا كہ يكم رمضان كو نماز عشاء كے بعد ؟
نماز تراويح كب شروع ہو گى رمضان كى پہلى يا كہ دوسرى رات ؟
سوال: 50547
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مسلمان شخص كے ليے رمضان المبارك كى پہلى رات نماز تراويح ادا كرنا مشروع ہے، اور يہ رات وہ ہے جس ميں چاند نظر آئے، اور مسلمان شعبان كے تيس يوم پورے كرتے ہيں.
اور اسى طرح رمضان كے آخر ميں جب عيد الفطر كا چاند نظر آجائے يا پھر رمضان كے تيس يوم مكمل كر ليے جائيں تو اس رات تراويح ادا نہيں ہونگى.
تو اس سے يہ پتہ چلا كہ تراويح كا تعلق رمضان كے دن كے روزے نہيں بلكہ رات كو چاند كے ساتھ مہينہ شروع ہونے اور رمضان كا آخرى دن ختم ہونے سے ہے.
اور يہ نہيں كہنا چاہيے كہ نماز تروايح مطلقا نفلى نماز ہے لہذا كسى بھى رات باجماعت ادا كى جاسكتى ہے؛ بلكہ صحيح يہ ہے كہ تراويح تو رمضان المبارك كے ساتھ خاص ہيں اور اسے ادا كرنے والا قيام كا اجروثواب حاصل كرتا ہے، اور اس كى جماعت كا حكم دوسرى جماعت جيسا نہيں، لہذا رمضان المبارك ميں ہر رات اعلانيہ تشجيع كے ساتھ باجماعت ادا كرنا جائز ہے، ليكن اس كے علاوہ دوسرى راتوں ميں باجماعت قيام نہيں ہو سكتا، كيونكہ يہ سنت وہى ہے جو بغير كسى قصد يا تشجيع اور ابھارنے اور تعليم كے مقصد سے آيا ہو تو بعض اوقات اس پر ہميشگى اور التزام كيے بغير ہى مسنون كيا جاتا ہے.
شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
رمضان المبارك كے علاوہ باقى ايام ميں تراويح بدعت ہے، اگر رمضان كے علاوہ كسى اور رات لوگ كسى مسجد ميں جمع ہو قيام كى جماعت كروائيں تو يہ بدعت ہو گى.
اور بعض اوقات اگر انسان رمضان المبارك كے علاوہ كسى اور ايام ميں اپنے گھر كے اندر جماعت كروائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كيا ہے، ايك بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن عباس اور ايك بار ابن مسعود، اور ايك بار حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہم كو ان كے گھر ميں باجماعت نماز پڑھائى، ليكن اسے سنن راتبہ نہيں بنايا جا سكتا، اور نہ ہى يہ مسجد ميں كيا جا سكتا ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 60 – 61 ).
اور اس بنا پر جس نے رمضان المبارك شروع ہونے سے قبل نماز تراويح ادا كى تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كہ كسى نے بغير وقت نماز ادا كر لى، تو اسے اس كا كوئى اجروثواب حاصل نہيں ہو گا، اور يہ اس وقت ہے جب وہ ايسا جان بوجھ نہ كر كے گناہ سے بچا ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب