ميں پوليش سٹيشن پر كام كرتا ہوں، اور بعض اوقات ہفتہ ميں دو بار بطور قائم مقام ڈيوٹى كرنا پڑتى ہے، اس دوران ميں كام اور افيسروں كے حكم كى بنا پر پوليس سٹيشن سے نكلنا ممكن نہيں، تو كيا ميں ان كى مخالفت كرتے ہوئے قريبى مسجد ميں نماز تراويح كى ادائيگى كے ليے جا سكتا ہوں ؟
كيا ڈيوٹى چھوڑ كر نماز تراويح ادا كر سكتا ہوں ؟
سوال: 50664
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ رمضان المبارك ميں اجروثواب اور مغفرت كے اساب كى زيادہ حرص ركھنا بہت اچھا اور جائز كام ہے، ليكن يہ ايك شرط كے ساتھ مشروط ہے كہ اس كى بنا پر اس سے بہتر اور افضل كام ميں كوئى خلل نہ واقع ہوتا ہو.
اگر كوئى انسان كسى دوكان يا كمپنى ميں ملازم ہو تو اس كے ليے نفلى عبادت اور قيام كے ليے ڈيوٹى چھوڑنا جائز نہيں، تو پھر جب كام اور ڈيوٹى كا تعلق امن عامہ سے ہو جو كہ بہت اہم اور لوگوں كى جانوں اور امن و امان كے ساتھ تعلق ركھتا ہو تو پھر كيسے ہو سكتا ہے؟
لہذا آپ واجب ميں كوتاہى كرتے ہوئے نفلى كام كى حرص نہ ركھيں، يہ ممكن ہے كہ آپ فراغت ميں اپنى ڈيوٹى والى جگہ پر تھوڑى تھوڑى كر كے تراويح ادا كر ليں، يا پھر رات كے آخرى حصہ ميں اپنے گھر جا كر ادا كر ليں اگر آپ اس كى ادائيگى ميں سچائى اختيار كرينگے تو اللہ تعالى آپ كو مكمل اجروثواب عطا كرے گا، چاہے آپ ڈيوٹى يا گھر ميں تراويح نہ بھى ادا كر سكيں.
محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميں ايك تجارتى ماركيٹ ميں ملازم ہو، اور مسجد ميں تراويح نہيں ادا كرسكتا كيونكہ ڈيوٹى ٹائم مغرب كے بعد سحرى تك ہوتا ہے، تو كيا ميں گنہگار ہوں ؟
اور اس طرح جو ميرا ثواب ضائع ہو گيا ہے اس كا مداوا كس طرح كيا جسا سكتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
تراويح ترك كرنے پر آپ گنہگار نہيں كيونكہ تراويح سنت ہيں، اگر انسان تراويح ادا كرتا ہے تو اسے اجروثواب حاصل ہو گا، اور اگر ادا نہيں كرتا تو اسے گناہ نہيں ہے.
اور جب آپ كى نيت سے اللہ تعالى كو يہ علم ہو گا كہ اگر آپ اس كام جو كہ مزدورى كے معاہدہ ميں شامل ہے ميں مشغول نہ ہوتے تو آپ تراويح ادا كرتے، اس ليے كہ اللہ تعالى كا فضل بہت وسيع ہے، اللہ سبحانہ وتعالى آپ كو نيت كے مطابق ثواب سے نوازے گا.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 255 ).
اور شيخ عبد العزيز آل شيخ حفظہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
بعض لوگ عمرہ كے ليے جاتے ہيں تو وہ اپنى فيملى يا ڈيوٹى يا جس مسجد ميں امامت كراتے يا اذان ديتے ہيں كو چھوڑ جاتے ہيں، تو اس بارہ ميں آپ انہيں كيا كہيں گے؟
شيخ كا جواب تھا:
كسى واجب كام ميں خلل اندازى كر كے ہميں كوئى نفلى كام سرانجام دينا زيب نہيں ديتا، نوافل كے ساتھ تو قرب اسى وقت حاصل ہوتا ہے جب ہم اپنے واجبات كى ادائيگى كريں، لہذا جس نے اپنا گھر يا اپنى ڈيوٹى ضائع كى يا كسى امام نے اپنى امامت ضائع كى تو وہ ماجور شمار نہيں كيا جائے گا، بلكہ وہ گنہگار ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب