اللہ تعالی ہماری دعائیں کیوں نہیں قبول فرماتا ؟
اللہ تعالی ہماری دعائیں کیوں نہیں قبول فرماتا؟
سوال: 5113
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دعائیں، اور تعوّذات[ایسی دعائیں جن میں اللہ کی پناہ حاصل کی جائے] کی حیثیت اسلحہ کی طرح ہے، اور اسلحے کی کارکردگی اسلحہ چلانے والے پر منحصر ہوتی ہے، صرف اسلحے کی تیزی کارگر ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ اسلحہ مکمل اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، اور اسلحہ چلانے والے بازو میں قوت ہو، اور درمیان میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو تو دشمن پر ضرب کاری لگتی ہے، اور ان تینوں اشیاء میں سے کوئی ایک ناپید ہو تو نشانہ متأثر ہوتا ہے"
"الداء والدواء " از ابن قیم، صفحہ: 35
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوا کہ کچھ حالات، آداب ، اور احکام ہیں جنکا دعائیہ الفاظ اور دعا مانگنے والے میں ہونا ضروری ہے، اور کچھ رکاوٹیں، اور موانع ہیں جنکی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی، چنانچہ ان اشیاء کا دعا مانگنے والے، اور دعائیہ الفاظ سے دور ہونا ضروری، لہذا جوں ہی یہ تمام اشیاء موجود ہونگی، دعا قبول ہوجائے گی۔
چنانچہ قبولیتِ دعا کیلئے معاون اسباب میں چند یہ اسباب شامل ہیں:
1- دعا میں اخلاص: دعا کیلئے اہم اور عظیم ترین ادب ہے، اللہ تعالی نے بھی دعا میں اخلاص پر زور دیتے ہوئے فرمایا: (وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ) ترجمہ: اور عبادت اللہ تعالی کیلئے خالص کرتے ہوئے [دعا میں]اسی کو پکارو۔ الاعراف/29، اور دعا میں اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ : دعا کرنے والا یہ نظریہ رکھے کہ صرف اللہ عز وجل کو ہی پکارا جاسکتا ہے، اور وہی اکیلا تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے، اور دعا کرتے ہوئے ریا کاری سے گریز کیا جائے۔
2- توبہ ، اور اللہ کی طرف رجوع: چونکہ گناہ دعاؤں کی عدمِ قبولیت کیلئے بنیادی سبب ہے، اس لئے دعا مانگنے والے کیلئے ضروری ہے کہ مانگنے سے پہلے گناہوں سے توبہ و استغفار کرے، جیسے کہ اللہ عزو جل نے نوح علیہ السلام کی زبانی فرمایا: (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (12))
ترجمہ: [نوح علیہ السلام کہتے ہیں] اور میں نے ان سے کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگ لو، بلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے (10) اللہ تعالی تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا (11) اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا ۔ نوح/ 10-12
3- عاجزی، انکساری، خشوع،و خضوع، [قبولیت کی ]امید اور [دعا مسترد ہونے کا]خوف، حقیقت میں دعا کی روح، دعا کا مقصود ، اور دعا کا مغز ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:( اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ)
ترجمہ: اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ الاعراف/ 55
4- دعا الحاح کیساتھ بار بار کی جائی، دعا کرنے میں تنگی، اور سستی کا شکار نہ ہو: دو تین بار دعا کرنے سے الحاح ہوجاتا ہے، تین پر اکتفاء کرنا سنت کے مطابق ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین ، تین باردعا اور استغفار پسند تھی۔ ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
5- خوشحالی کے وقت دعا کرنا، اور آسودگی میں کثرت سے دعائیں مانگنا، اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (خوشحالی میں اللہ کو تم یاد رکھو، زبوں حالی میں وہ تمہیں یاد رکھے گا)احمد نے اسے روایت کیا ہے۔
6- دعا کی ابتداء اور انتہا میں اللہ تعالی کے اسمائے حسنی، اور صفاتِ باری تعالی کا واسطہ دیا جائے، فرمان باری تعالی ہے:
(وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا) ترجمہ: اور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، تم انہی کا واسطہ دیکر اُسے پکارو۔ الاعراف/ 180
7- جوامع الکلم، واضح، اور اچھی دعائیں اختیار کی جائیں، چنانچہ سب سے بہترین دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دعائیں ہیں، ویسے انسان کی ضرورت کے مطابق دیگر دعائیہ الفاظ سے بھی دعا مانگی جاسکتی ہے۔
اسی طرح دعا کے مستحب آداب [یعنی یہ واجب نہیں ہیں]میں یہ بھی شامل ہے کہ : با وضو، قبلہ رُخ ہوکر دعا کریں، ابتدائے دعا میں اللہ تعالی کی حمد وثناء خوانی کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں، اور دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانا بھی جائز ہے۔
قبولیتِ دعا کے امکان زیادہ قوی کرنے کیلئے قبولیت کے اوقات، اور مقامات تلاش کریں۔
چنانچہ دعا کیلئے افضل اوقات میں : فجر سے پہلے سحری کا وقت، رات کی آخری تہائی کا وقت، جمعہ کے دن کے آخری لمحات، بارش ہونے کا وقت، آذان اور اقامت کے درمیان والا وقت۔
اور افضل جگہوں میں تمام مساجد ، اور مسجد الحرام کو خصوصی درجہ حاصل ہے۔
اور ایسے حالات جن میں دعاؤں کی قبولیت کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں وہ یہ ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، روزہ دار کی دعا، مجبور اور مشکل میں پھنسے ہوئے شخص کی دعا، اور ایک مسلمان کی اپنے بھائی کے حق میں اسکی عدم موجودگی میں دعا کرنا شامل ہے۔
جبکہ دعا کی قبولیت کے راستے میں بننے والی رکاوٹوں میں درج ذیل امور شامل ہیں:
1- دعا کرنے کا انداز ہی نامناسب ہو: مثال کے طور پر دعا میں زیادتی ہو، یا اللہ عزوجل کیساتھ بے ادبی کی جائے، دعا میں زیادتی سے مراد یہ ہے کہ: اللہ تعالی سے ایسی دعا مانگی جائے جو مانگنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ اپنے لئے دائمی دنیاوی زندگی مانگے، یا گناہ اور حرام اشیاء کا سوال کرے، یا کسی کو موت کی بد دعا دے،چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: (بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے، جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے)مسلم
2- دعا کرنے والے شخص میں کمزوری ہو، کہ اسکا دل اللہ تعالی کی طرف متوجہ نہ ہو، یا پھر اللہ کیساتھ بے ادبی کا انداز اپنائے، مثال کے طور پر: دعا اونچی اونچی آواز سے کرے، یا اللہ سے ایسے مانگے کہ جیسے اُسے اللہ تعالی سے دعا کی قبولیت کیلئے کوئی چاہت ہی نہیں ہے، یا پھر تکلّف کیساتھ الفاظ استعمال کرے، اور معنی مفہوم سے توجہ بالکل ہٹ جائے، یا بناوٹی آہ و بکا اور چیخ و پکار میں مبالغہ کیلئے تکلّف سے کام لے۔
3- دعا کی قبولیت کیلئے کوئی رکاوٹ موجود ہو: مثلا اللہ کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا جائے، جیسے کہ: کھانے ، پینے، پہننے، جائے اقامت اور سواری میں حرام مال استعمال ہو، ذریعہ آمدنی حرام کاموں پر مشتمل ہو، دلوں پر گناہوں کا زنگ چڑھا ہوا ہو، دین میں بدعات کا غلبہ ہو، اور قلب پر غفلت کا قبضہ ہو۔
4- حرام کمائی کھانا،قبولیتِ دعا کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! بیشک اللہ تعالی پاک ہے، اور پاکیزہ اشیاء ہی قبول کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے متقی لوگوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ، فرمایا: (يَاأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ) ترجمہ: اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک تم جو بھی کرتے ہو میں اسکو بخوبی جانتا ہوں۔ المؤمنون/51
اور مؤمنین کو فرمایا: (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ) ترجمہ:اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاکیزہ اشیاء عنائت کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ البقرہ/172، پھر اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا: جس کے لمبے سفر کی وجہ سے پراگندہ ، اور گرد و غبار سے اَٹے ہوئے بال ہیں، اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھا کر کہتا ہے: یا رب! یا رب! اسکا کھانا بھی حرام کا، پینا بھی حرام کا، اسے غذا بھی حرام کی دی گئی، ان تمام اسباب کی وجہ سے اسکی دعا کیسے قبول ہو!!) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے کچھ امور بھی بیان فرمائے، جن سے دعا کی قبولیت کے امکان زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، مثلا: کہ وہ مسافر ہے، اللہ کا ہی محتاج ہے، لیکن اسکے باوجود دعا اس لئے قبول نہیں ہوتی کہ اس نے حرام کھایا، اللہ تعالی ہمیں ان سے محفوظ رکھے، اور عافیت نصیب فرمائے۔
5- دعا کی قبولیت کیلئے جلد بازی کرنا، اور مایوس ہوکر دعا ترک کر دینا: چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کسی کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک قبولیت دعا کیلئے جلد بازی نہ کرے، اور کہہ دے: "میں نے دعائیں تو بہت کی ہیں، لیکن کوئی قبول ہی نہیں ہوتی")اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔
6- مشیئتِ الہی پر قبولیت دعا کو معلق کرنا: مثال کے طور پر یہ کہنا کہ : "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے" بلکہ دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ پر عزم، کامل کوشش، اور الحاح کیساتھ دعا مانگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی بھی دعا کرتے ہوئے ہرگز یہ مت کہے کہ : "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے"، "یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما" بلکہ پختہ عزم کیساتھ مانگے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو کوئی بھی مجبور نہیں کرسکتا)بخاری و مسلم
قبولیتِ دعا کیلئے یہ لازمی نہیں کہ ان تمام آداب کو بیک وقت ملحوظِ خاطر رکھے، اور تمام یہ تمام رکاوٹیں بھی نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت حال نادر ہی پائی جاتی ہے، لیکن پھر بھی انسان کو اپنی استطاعت کے مطابق ان آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ قبولیتِ دعا کی کئی صورتیں ہیں:
• اللہ تعالی بندے کی دعا قبول کرتے ہوئے اسے وہی عنائت کردے جسکی وہ تمنا کرتا ہے۔
• یا پھر اس دعا کے بدلے میں کسی شر کو رفع کردیتا ہے۔
• یا بندے کے حق میں اسکی دعا سے بہتر چیز میسر فرما دیتا ہے۔
• یا اسکی دعا کو قیامت کے دن کیلئے ذخیرہ کردیتا ہے، جہاں پر انسان کو اِسکی انتہائی ضرورت ہوگی۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد