يونيورسٹى كے ايك پروفيسر كے ليے ادارہ نے ايك شرط ركھى كہ اسے تنخواہ كے بغير رخصت اس صورت ميں مل سكتى ہے كہ وہ اپنى دوسرى آمدنى كا پچيس فيصد ( 25 % ) سودى بنك ميں ركھيں اور وہ اس سے كچھ حصہ ٹيكس وصول كيا كرينگے، تو كيا اس كے ليے اپنى تنخواہ كى صحيح معلومات نہ دينا صحيح ہيں تا كہ بنك ميں زيادہ رقم نہ ركھى جائے اور اس سے ٹيكس كاٹا جائے ؟
يہ سول فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كے سامنے پيش كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ ايسا كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس كا ان كے ساتھ معاہدہ ہے، اور جب اس نے ان كے ساتھ معاہدہ كيا ہوا ہے تو پھر ان كے نظام كے خلاف حيلہ كرنا جائز نہيں.
سوال:
چاہے اس ميں ظلم اور ٹيكس بھى ہو ؟
جواب:
ليكن وہ شخص خود ہى شروع سے اس پر راضى ہوا ہے. اھـ
واللہ تعالى اعلم