سالانہ تقریبات اور تہواروں میں شرکت کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ مثلاً: عالمی دن برائے خاندان، عالمی دن برائے معذورین، عالمی دن برائے عمر رسیدہ افراد، اور ایسے ہی مذہبی سالانہ تقریبات مثلاً: شبِ معراج، عید میلاد النبی، عید ہجرتِ نبوی وغیرہ، ان تہواروں میں خصوصی پمفلٹ تیار کرنا اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کیلئے اسلامی دروس اور سیمینار منعقد کرناکیساہے؟
بعض سالانہ تہواروں میں شرکت کرنے کا حکم
سوال: 5219
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شریعت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ تہواروں کے یہ دن جنہیں ہر سال منایا جاتا ہے، یہ بدعتی تہواروں میں سے ہیں، یہ وہ خود ساختہ احکامات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو نئے [دینی] امور سے بچاؤ، کیونکہ [دین میں]ہر نئی چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے) احمد، ابو داود، ترمذی وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے۔
اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہر قوم کا تہوار ہوتا ہے، اور یہ [عید کا]دن ہمارا تہوار ہے) متفق علیہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم" میں موسمی تہواروں اور شرعی دلائل سے عاری خود ساختہ دنوں کی مذمت کے بارے میں مفصل گفتگوفرمائی ہے۔
اُن کے مطابق اِن خود ساختہ تہواروں میں دینی بگاڑ کے متعلق ہر شخص واقف نہیں ہے ، بلکہ اکثر لوگ ان بدعتی تہواروں کی خرابیوں سے نابلد ہیں، خصوصا ایسے تہوار جو شرعی عبادات سے متعلق ہوں ان سے پہنچنے والے نقصانات کا صرف انتہائی حاذق و حاضر دماغ لوگ ہی ادراک کر پاتے ہیں۔
تاہم لوگوں کو شرعی احکامات کے منفی اور مثبت پہلو معلوم نہ بھی ہوں تو بھی سب لوگوں کیلئے کتا ب و سنت کی اتباع لازمی ہے۔
اور جو کوئی شخص کسی دن خود ساختہ روزہ ، یا نماز کا اہتمام کرے، یا کھانا بنائے،یا کسی دن کو خاص کر کے اچھے لباس زیب تن کرے، یا گھر والوں کیلئے خوب کھانے پینے کا اہتمام کرے یا اسی طرح کے کچھ امور سر انجام دے، تو لازمی طور پر ان تمام امور کے پیچھے اُس کا یہ قلبی اعتقاد ضرور ہو گا کہ یہ دن دیگر ایام سے افضل ہے، دوسری صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے رہبر [پیر صاحب]کے دل میں اِس دن کے افضل ہونے کا نظریہ نہ ہوتا تو اس دن یا رات کو دیگر ایام پر ترجیح دینے کی بات ہی دل میں نہ اٹھتی، کیونکہ بلا وجہ کسی کو کسی پر ترجیح ناممکن ہے۔
لفظ ِعید کا اطلاق جگہ، وقت، اور لوگوں کے اجتماع پر ہوتا ہے، اور یہ تین عناصر ہی ہیں جن سےبدعات پیدا کی گئی ہیں۔
وقت سے متعلقہ بدعات کی تین قسمیں ہیں، اور ان اقسام میں کچھ کا تعلق کسی نہ کسی طور پر عمل یا مکان سے بھی ہے:
1- وہ ایام جن کی شریعت نے عظمت بیان ہی نہیں کی، اور نہ ہی سلف کے ہاں اُن ایام کی تعظیم کا ذکر ملتا ہے، اور نہ ہی ان میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا جو اس دن کی تعظیم کا موجب ہو۔
2- وہ ایام جن میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا جو کسی اور دن بھی وقوع پذیر ہو سکتا تھا، لیکن یہ واقعہ اس دن کی تعظیم کا موجب نہیں بنا(شرعی طور پر)، اور نہ ہی سلف نے اس دن کی تعظیم کی۔
چنانچہ جو شخص درج بالا ایام کی تعظیم کرتاہے توگویا وہ عیسائیوں کی مشابہت کرتا ہے جو عیسی علیہ السلام کے متعلق رونما ہونے والے واقعات کے دنوں کو خوشی اور تہوار کا دن بناتے ہیں،اور یہود کی مشابہت بھی لازم آتی ہےکیونکہ وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں جبکہ شریعتِ اسلامیہ کی رو سےتہوار وہ ہے جس دن کو اللہ تعالی نے شرعی تہوار قرار دیا ،اور اسے منایا بھی شرعی طور پرہی جائے گا، بصورتِ دیگر دین میں ایسی چیز کا اضافہ جائزنہیں جو دین کا حصہ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر بعض لوگ عیسائیوں کے کرسمس ڈے کے مقابلے میں یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے نام پر بدعات مناتے ہیں۔۔ کیونکہ یہ تمام [میلاد النبی سے متعلقہ بدعتی امور] سلف نے نہیں کیے، حالانکہ اس وقت بھی اس کے اسباب موجود تھے، اور اگر یہ کام اچھا ہوتا تو اس سے کوئی مانع بھی نہیں تھا[لیکن پھر بھی انہوں نے میلاد نہیں منایا جو اس کے غلط ہونے کی دلیل ہے]۔۔۔
3- ایسے ایام جو شرعی طور پر عظمت والے ہیں، مثلاً: یومِ عاشوراء، یوم عرفہ، عیدین کے دن وغیرہ، (جن کو شرعی طور پر منانا چاہیے تھا)لیکن خواہش پرستوں نےان میں بھی اپنے نظریات کے مطابق بعض اشیاء کو افضل جانتے ہوئے گڑھ لیا ، حالانکہ یہ غلط ہے، اس سے منع کیا گیا ہے، مثلاً: شیعوں نے عاشوراء کےد ن کو یوم سوگ اور جھوٹی پیاس بجھانے کا دن بنا دیا، اس کے علاوہ اور بھی کافی امور اس دن کے بارے میں انہوں نے ایجاد کئے، حالانکہ یہ سارے کے سارے امور ان معامالات میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ اور اسکے رسول نے اجازت نہیں دی یہاں تک کہ سلف صالحین، اور اہل بیت نے بھی اسکی اجازت نہیں دی۔
کچھ اجتماعات جو اِن کے علاوہ ہفتہ وار، ماہانہ یا سالانہ منعقد کروائے جاتے ہیں تو اِن سے پانچ نمازوں، جمعہ، عیدین، اور حج کے اجتماعات کو زَچ پہنچتی ہے اور یہ ایک نئی بدعت ہے۔
اس کے بدعت کے متعلق قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ شرعی عبادات وقت کے ساتھ ساتھ بار بار آتی ہیں، اور ایک تہوار اور مذہبی شعار بن جاتی ہیں، اللہ تعالی نے ان تہواروں کی اتنی تعداد شریعت میں رکھی ہے جو لوگوں کیلئے کافی ہے، چنانچہ اگر ان شرعی اجتماعات کے مقابلے میں مزید اجتماعات منعقد کئے جائیں، تو یہ اللہ کی شریعت کا مقابلہ تصور کیا جائےگا، اور یہ بات بہت گراں ہے، اسکے کچھ نقصانات پہلے بیان کیے جا چکے ہیں، لیکن [یہ تمام باتیں اس وقت لازم نہیں آتیں] جب کوئی آدمی اکیلا اس چیز کا اہتمام کرے، یا کبھی کبھا ر کچھ لوگ مل کر کریں" اقتباس تلخیص کیساتھ مکمل ہوا
مندرجہ بالا کی بنا پر [آپ کے سوال کا جواب یہ ہے]کہ کسی مسلمان کیلئے ان دنوں میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے جن کا مسلسل سالانہ انعقاد کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کی عیدوں کی طرح ہے، جیسے کہ پہلے بھی اس بات کی طرف اشارہ گزر چکا ہے، اور اگر یہ اجتماعات ہر سال منعقد نہ ہوں، بلکہ وقفے وقفے سے منعقد کیے جائیں، اور ایک مسلمان کو ان اجتماعات میں لوگوں کےسامنے حق بات بیان کرنے کے مواقع ہوں تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔.
ماخذ:
ماخوذ از: "مسائل و رسائل" از محمد الحمود النجدی، صفحہ: 31