اگر كوئى غير مسلم قصائى دعوى كرے كہ وہ گوشت اور مرغى حلال فروخت كرتا ہے تو كيا اس سے خريدارى كرنا جائز ہے؟
اور اگر ہمارے دوست و احباب اس سے گوشت خريدتے ہيں تو كيا ہمارے ليے يہ گوشت كھانا جائز ہے؟
يہ علم ميں رہے كہ ہمارے علاقے ميں مسلمان بھائيوں كى نگرانى ميں دو دوكانيں ہيں جو حلال گوشت فروخت كرتى ہيں ؟
كيا حلال ذبح كا دعوى كرنے والے غير مسلم قصائى سے گوشت خريد ليا جائے ؟
سوال: 52800
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
بہتر اور افضل تو يہى ہے كہ آپ اپنى ضرورت كا گوشت مسلمانوں سے خريديں؛ اس ميں زيادہ احتياط اور شك سے بچنے كا احتمال ہے، اور پھر اس ميں مسلمانوں كے ساتھ معاملات ميں معاونت بھى ہے جس كى انہيں يورپ جيسے ممالك ميں رہتے ہوئے ضرورت بھى ہے، پھر اس ميں بھى كوئى شك و شبہ نہيں كہ مسلمان شخص كو تجارتى نفع دينا كسى دوسرے كى بنسبت زيادہ بہتر اور افضل ہے.
اور مسلمان شخص كو اتنا ہى كافى ہے كہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائيوں كے ساتھ ايمانى رابطہ كى تجديد كو محسوس كرے اور اس كا شعور اجاگر ہو، اور يہ شعور اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب كفار كى ملكيت دوكانوں سے دور رہا جائے اور انہيں ترك كيا جائے، اور ہو سكتا ہے يہ زيادہ قريب بھى ہو، اور ريٹ بھى دوسروں سے كم ملے، اس ليے اسے اپنى دينى بھائيوں سے خريدارى كرنى چاہيے.
آپ اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 9205 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اگر وہ غير مسلم قصائى اہل كتاب كے علاوہ كسى اور دين سے تعلق ركھنے والوں ميں سے ہے تو اس كا ذبيحہ حلال نہيں، ليكن اگر وہ اہل كتاب سے تعلق ركھتا ہے ؛ يعنى يہود يا عيسائى ہے تو اس كا ذبيحہ حلال ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( اہل علم اہل كتاب كے ذبيحہ كے حلال ہونے پر متفق اور جمع ہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جنہيں كتاب دى گئى ہے ان كا كھانا تمہارے ليے حلال ہے المآئدۃ ( 5 ).
يعنى ان كے ذبح كردہ جانور، امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: طعامہم سے مراد ان كے ذبح كردہ جانور ہيں ).
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 13 / 293 ).
پھر ہميں تو ان سے پوچھنے كى ضرورت ہى نہيں كہ انہوں نے كس طريقہ سے ذبح كيا ہے؛ كيونكہ اصل ميں تو ان كا ذبح صحيح ہے، كيونكہ وہ اس كے اہل ہيں. مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (20805 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
” كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور كہنے لگے:
كچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہيں، ہميں علم نہيں كہ انہوں نے اس پر اللہ كا نام ليا گيا ہے كہ نہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم بسم اللہ پڑھو اور كھالو”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5507 ).
ميں كہتا ہوں ( يہ كلام شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى ہے ): وہ ابھى نئے نئے مسلمان تھے؛ يعنى ( وہ ) ابھى وہ اسلام ميں جديد تھے، انہيں علم نہيں تھا كہ آيا انہوں نے اللہ كا نام ليا ہے كہ نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم بسم اللہ پڑھ كر كھالو”
چاہے ہميں علم نہ ہو كہ اس ( ذبح كرنے والے ) نے اللہ كا نام ليا ہے يا نہيں؛ اسى طرح اس كا كھانا مباح ہے، اگرچہ ہميں يہ علم نہ ہو كہ اسے صحيح طريقہ كے ساتھ ذبح كيا گيا يا غير صحيح طريقہ پر؛ كيونكہ صادر ہونے والا فعل جب اس كے اہل سے صادر ہو تو اصلا وہ صحيح اور نافذ ہوتا ہے، ليكن اگر كوئى دليل مل جائے تو پھر نہيں.
لہذا اگر ہمارے پاس كسى مسلمان يا يہودى يا نصرانى كا ذبح كيا ہوا گوشت آ جائے تو ہم اس كے متعلق سوال نہيں كرينگے، اور يہ نہيں كہيں گہ يہ كس طرح ذبح كيا گيا؟ اور نہ ہى يہ كہ آيا اس پر اللہ كا نام ليا گيا ہے يا نہيں ؟
جب تك اس كے حرام ہونے پر كوئى دليل قائم نہ ہو جائے وہ حلال ہے؛ اور يہ اللہ تعالى كى طرف سے آسانى اور رحمت ہے.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 1 / 77 ) اختصار كے ساتھ.
تو اس سے يہ پتہ چلا كہ آپ كا اس دوكان سے خريدارى كرنا، اور اس سے خريدارى كرنے والے شخص كے ہاں سے كھانے ميں كوئى حرج نہيں، اور جب تك آپ كو يہ يقين نہ ہو جائے كہ اسے غير شرعى طريقہ پر ذبح كيا گيا ہے، آپ كو اس كى ضرورت نہيں كہ اس كے ذبح كا طريقہ معلوم كريں، مثلا بجلى كا جھٹكا لگا كر ذبح كرنا، يا كوئى اور غير شرعى طريقہ.
جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے كہ اولى اور بہتر يہى ہے كہ مسلمان كى دوكان سے خريدا جائے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات