ہمارے گھر ميں ايك ملازمہ كام كرتى ہے جو كہ مسلمان نہيں، والدہ نے اسے ہر قسم كا كھانا پكانے كى تعليم دى حتى كہ وہ اس ميں ماہر ہو گئى ہے، اور ملازمہ نے خود ہى كھانے كے سارے طريقے ايك كاپى ميں لكھ ليے ہيں، سوال يہ ہے كہ:
اب والدہ اس كى وہ كاپى اس دليل كے ساتھ ملازمہ كے علم كے بغير لينا چاہتى ہے كہ يہ سب كچھ اس نے ہى سكھايا ہے، اور اسے يہ لينے كا حق حاصل ہے، تو كيا يہ ملازمہ پر ظلم شمار تو نہيں ہو گا ؟
ملازمہ كى ڈائرى لينے كا حكم
سوال: 52822
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
باہر سے كافر ملازمہ منگوانا اور پھر انہيں گھروں اور اپنى اولاد كا امين بنانے ميں اولاد كے اخلاق اور دين كو بہت بڑا خطرہ ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” رہا مسئلہ گھروں ميں كافر ملازمات باہر سے منگوانے كا چاہے وہ بدھ مت سے تعلق ركھتى ہوں، يا عيسائيت سے، يا كسى اور كفريہ مذہب سے تو ان كا اس جزيرہ ميں لانا جائز نہيں، ميرى مراد جزيرہ عربيہ ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا اور اس جزيرہ سے كفار كو باہر نكالنے كى وصيت فرمائى ہے؛ كيونكہ يہ اسلام كا گہوارہ اور رسالت كا سورج طلوع ہونے كا مطلع ہے، اس ليے يہاں دو دين جمع نہيں ہو سكتے، اور نہ ہى يہاں كفار كو لايا جا سكتا ہے، ليكن اگر حكمران كوئى ضرورت محسوس كرے تو وہ لا سكتا ہے، پھر اس كافر كو اپنے ملك واپس بھيج ديا جائيگا ” انتہى.
ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 6 / 361 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” اس ليے كہ آپ كے پہلو اور آپ كے گھر ميں آپ كے اہل و عيال اور اولاد كے ساتھ كافر نہيں رہنا چاہيے، اگر اس ميں اور كوئى نقصان نہ بھى ہو ليكن يہ تو ضرور ہے كہ باقى سب گھر كے افراد نماز ادا كرينگے، ليكن يہ ( ملازمہ ) عورت نماز نہيں ادا كريگى تو چھوٹے بچے كہينگے: يہ عورت نماز ادا كيوں نہيں كرتى! اور وہ اس سے محبت بھى كرتے ہوں تو پھر بچے اس وقت نماز كى ادائيگى كى ضرورت محسوس نہيں كرينگے.
يہ تو اس وقت ہے جب وہ انہيں اپنا دين نہ سكھاتى ہو، جيسا كہ بعض لوگوں كى جانب سے بتايا گيا ہے كہ انہوں نے سنا كہ ملازمہ بچوں كو يہ تلقين كر رہى ہے كہ عيسى ہى اللہ عزوجل ہے، اللہ تعالى سےہم سلامتى و عافيت كى طلبگار ہيں ” انتہى.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 3 / 53 ).
مزيد تفصيلى معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 22980 ) اور (26213 ) اور (26282 ) اور (31242 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
علماء كرام نے بيان فرمايا ہے كہ دنياوى ہنر سكھانے كى اجرت اور مزدورى لينى جائز ہے، اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ آج كے دور ميں كھانا پكانا اور تيار كرنے كا طريقہ بھى ايك بڑا اہم ہنر ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” فقھاء كرام كے مابين اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ مباح اشياء كى صنعت و حرفت كى تعليم اور ٹريننگ جن كے ساتھ نياوى امور وابستہ ہيں كے ليے كسى كو اجرت پر ركھا جائز ہے، مثلا كپڑے سلائى كرنا، اور لوہار كا كام، اور تعميراتى كام، اور كھيتى باڑى كرنا، اور اون بننا وغيرہ ” انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 13 / 66 ).
سوم:
اوپر كى سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر آپ كى والدہ كے ليے شرعا جائز ہے كہ وہ ملازمہ كو كھانے پكانے كا طريقہ اور كھانے كى صفات اور تيار كرنے كا طريقہ بتانے كى اجرت ليں، ليكن آپ كى والدہ كو چاہيے تھا كہ وہ اسے يہ سب كچھ سكھانے سے قبل بتا ديتى كہ وہ اس كى اجرت لے گى.
اب جبكہ حالت يہ ہے جو آپ نے سوال ميں بيان كى ہے كہ ملازمہ آپ كى والدہ كى رغبت اور اختيار سے كھانا پكانا اور تيار كرنا سيكھ چكى ہے اور آپ كى والدہ نے ہى ارادتا اس كا اس پر تعاون كيا ہے، اس ليے ملازمہ كى كاپى جس ميں اس نے كھانا پكانے كے طريقہ جات لكھ رہے ہيں آپ كى والدہ كے ليے لينى جائز نہيں؛ كيونكہ يہ ملازمہ كى ملكيت ہے، اس نے يہ كاپى اپنے ہاتھ سے لكھى اور اس كا خيال ركھا اور اسے سنبھال ركھا ہے، اور آپ كى والدہ كا اسے طريقہ سكھانا تو بطور معاونت ہے.
اس ليے آپ اسے كمزور نہ سمجھ كر اس كا حق نہ ليں، چاہے وہ غير مسلم ہى ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” آپ اور آپ كى والدہ پر واجب ہے كہ وہ اس ملازمہ كو اس كے ملك واپس بھيجے، اور نہ تو آپ كے ليے اسے اذيت و تكليف دينى جائز ہے، اور نہ ہى آپ كى والدہ كو اسےاذيت دينے كا حق حاصل ہے، بلكہ اس سے بہتر انداز ميں خدمت ليں حتى كہ وہ اپنے ملك واپس چلى جائے؛ كيونكہ اللہ عز وجل نے اپنے بندوں پر كفار كے ساتھ ظلم كرنا حرام كيا ہے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ظلم كرنے سے بچو، كيونكہ ظلم روز قيامت كے اندھيروں ميں سے ايك اندھيرا ہے ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2578 ).
اور اس ليے بھى ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ عزوجل سے روايت كرتے ہوئے فرمايا ہے كہ:
” اللہ تعالى كا فرمان ہے: اے ميرے بندو ميں نے اپنے اوپر ظلم كو حرام كيا ہے، اور تم پر بھى اسے حرام كيا ہے كہ اس ليے تم آپ ميں ايك دوسرے پر ظلم مت كرو ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2577 ). انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 6 / 362 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات