میرا سوال احادیث اور سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مذاھب کے متعلق ہے ، میرے ملک کے لوگ شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، تو بعض اوقات مذھب کو حدیث اور سنت پر مقدم کر لیا جاتا ہے تو اس حالت میں کیا میں سنت پر چلوں یا کہ شافعی مذھب اختیار کروں ؟
مثلا شافعی مذھب میں اگر مرد عورت کو عمدا یا غلطی سے چھو لے تو اس کا وضوء ٹوٹ جاتا ہے چاہے وہ عورت محرم ہی کیوں نہ ہو ، اور میں نے حدیث میں یہ پایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجرکے دوران عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ٹانگ ھلایا کرتے تھے ۔
ہمارے ہاں مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہےکہ اثناۓ حج وضوء کی نیت مذھب شافعی سے حنبلی مذھب کی طرف تحویل ہوجاتی ہے ، تو وہاں وہ اس طرح وضوء کرتے ہیں جس طرح کہ حنبلی ، اور اس کا سبب وہی ہے جواوپر والی مثال میں بیان ہوا ہے ، توکیا یہ صحیح ہے کہ اثناۓ حج کسی ایک مذھب سے دوسرے مذھب کی طرف ہوا جاۓ ؟
اور یہ کہ شافعی مذھب میں نماز فجرمیں دعاء قنوت سنت مؤکدہ ہے تو کیانبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے ، اور جو قنوت نہیں کرتا اس کا حکم کیا ہے ؟
کیا کسی مذھب کو حدیث پر مقدم کیا جا سکتا ہے
سوال: 5459
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
1 – انسان پر واجب یہ ہے کہ وہ اس کی اتباع کرے جس پر قرآن وسنت سے کوئ دلیل دلالت کرتی ہو چاہے وہ مذھب اور کسی مسلک کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ، لیکن کتاب وسنت کی فہم وہی ہو جوکہ اسلاف کی ہے نہ کہ ہماری اور سلف سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ تعالی ہیں ۔
اور جو مثال آپ نے ذکر کی ہے اس میں صحیح قول یہ ہے کہ : عورت کو چھونے سے مطلق طورپر وضوء نہیں ٹوٹتا چاہے وہ شہوت کے ساتھ یا شہوت کے بغیر ہو ۔
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو چھوا اور بغیر وضوء کۓ نماز کےلۓ چلے گۓ ۔
لیکن اگر شہوت کے سبب سے کوئ چیز نکل آئ تو وہ اس کی بنا پر وضوء کرے گا لیکن چھونے کی وجہ سے نہيں ۔
اوراللہ تعالی کا یہ فرمان : یاتم عورتوں کو چھوؤ تو صحیح قول کے مطابق اس سے مراد جماع ہے ۔
2 – اس بات کی کوئ ضرورت نہیں کہ حج کا فریضہ ادا کرنے میں ایک مذھب سے دوسرے مذھب کی طرف جایا جاۓ ، بلکہ آپ اس طرح حج کریں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( اپنے مناسک کا طریقہ مجھ سے لے لو ) ۔
3 – صرف مصائب کے وقت نماز فجر میں قنوت کرنا صحیح ہے ، یعنی جب مسلمانوں پر کوئ مصیبت نازل ہو تو یہ سنت اور مستحب ہے کہ نماز میں قنوت کی جاۓ تاکہ مسلمانوں سے یہ مصیبت ختم ہو ، لیکن دلائل سے ثابت اورصحیح یہ ہے کہ عام حالا ت میں یہ ثابت نہيں ۔
تو جو نماز فجرمیں قنوت نہیں کرتا اس کی نماز صحیح ہے حتی کہ شافعیہ رحمہم اللہ تعالی کے ہاں بھی اس کی نماز صحیح ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد