اسلام نے ہمیں ہر چیز سکھائی ہے کہ ہم کیسے کھائیں، کیسے نوش کریں، اور کیسے پہنیں؛ تو کیا سنت مطہرہ میں مسلمان کو ہم بستری کے آداب بھی بتلائے گئے ہیں؟ کیا ذخیرہ احادیث میں ایسی صحیح حدیث ہے جو اسلام میں ہم بستری کے آداب بتلاتی ہو؟
ہم بستری کے آداب
سوال: 5560
جواب کا خلاصہ
ہم بستری کرنے کے اسلام میں متعدد آداب ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: 1. اس کام کو صرف اللہ کی رضا کے لیے کرنے کی نیت کرنا۔ 2. ہم بستری سے پہلے دونوں باہمی عملی پیار محبت کا اظہار اور بوس و کنار کریں ۔ 3. خاوند یہ دعا پڑھے:{ بِسْمِ اللهِ اَللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا} اللہ کے نام سے، یا اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ فرما، اور شیطان سے اسے بھی محفوظ فرما جو تو ہمیں عطا کرے گا۔ 4. خاوند اندام نہانی میں کسی بھی طریقے سے جماع کر سکتا ہے۔ 5. خاوند کے لیے پاخانے کے راستے میں کسی بھی صورت میں جماع کرنا جائز نہیں ہے۔ 6. دونوں شرمگاہوں کے ملنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے، یا شرمگاہیں آپس میں نہ ملیں لیکن منی خارج ہو جائے تو تب بھی غسل واجب ہو جائے گا۔ 7. اگر خاوند دوبارہ ہم بستری کرنا چاہے تو درمیان میں وضو کر لے۔ 8. ماہواری کے دوران جماع کرنا حرام ہے۔9۔ شوہر اگر اولاد نہ چاہتا ہو تو منی کا اخراج باہر کرنا جائز ہے۔ 10۔ میاں بیوی دونوں کے لیے ان کی نجی ازدواجی زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے اسے بیان کرنا حرام ہے۔
Table Of Contents
بالکل آپ نے صحیح کہا کہ اسلام نے ہمیں ہر چیز سکھائی ہے؛ کیونکہ اسلام لوگوں کی معاشی، دینی، بلکہ زندگی اور موت سے متعلقہ ہر چیز کی رہنمائی کرتا ہے؛ کیونکہ دین اسلام اللہ تعالی کا دین ہے۔
ہم بستری زندگی کے اہم ترین امور میں سے ایک ہے اور ہمارے دین نے اس حوالے سے بھی ہماری مکمل رہنمائی کی ہے؛ لہذا جماع اسلام میں محض شہوانی اور حیوانی سرگرمی نہیں ہے کہ اپنی ضرورت پوری کی اور ختم، بلکہ اس کے احکامات اور آداب ہیں، اسے اچھی نیت کے ساتھ منسلک کیا ہے، اس کے لیے اذکار اور شرعی آداب مقرر کیے ہیں جس کی وجہ سے یہ کام بھی عبادت بن جاتا ہے اور اس کام کو کرنے پر مسلمان کو ثواب بھی ملتا ہے۔
اسلام میں جماع کے مقاصد:
سنت نبویہ میں ہم بستری کے مقاصد بیان ہوئے ہیں، چنانچہ امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب زاد المعاد میں کہتے ہیں:
"جماع اور ہم بستری کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کار سب سے بہترین طریقہ کار تھا، اس کے ذریعے جسمانی صحت کی حفاظت ہوتی ہے، لذت اور سرور ملتا ہے، اور جن مقاصد کے لیے جماع ہے وہ مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں؛ کیونکہ جماع کے بنیادی طور پر تین مقاصد ہیں:
پہلا مقصد: نسل انسانی کی حفاظت، اور انسانیت کے تسلسل کو اس وقت تک آگے بڑھانا جب تک اللہ تعالی کے ہاں تقدیر میں لکھی ہوئی تعداد اس جہان میں پوری نہیں ہو جاتی۔
دوسرا مقصد: منی کا اخراج کہ جس کے جسم میں رہنے سے پورے جسم کو نقصان ہو سکتا ہے۔
تیسرا مقصد: اپنی شہوت پوری کرنا اور لذت حاصل کرنا، اللہ تعالی کی نعمت سے فائدہ اٹھانا۔ یہی وہ مقصد ہو گا جو اکیلا ہی جنت میں ہو گا؛ کیونکہ وہاں پر نسل کا تصور نہیں اور نہ ہی منی جسم میں رہنے سے کوئی نقصان ہونے کا اندیشہ ہو گا۔
طبی ماہرین اس بات کے قائل ہیں کہ جماع سے انسانی صحت اچھی رہتی ہے۔" ختم شد
طب نبوی: (249)
امام ابن قیم رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"جماع کے فوائد: جماع سے انسان بد نظری سے بچ جاتا ہے، اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہے، انسان حرام کام کرنے سے دور رہنے کی طاقت پاتا ہے، یہی تمام فوائد عورت کو بھی حاصل ہوتے ہیں، پھر جماع سے انسان کو دنیاوی اور اخروی دونوں فوائد ملتے ہیں، مرد اپنی بیوی کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پابندی کے ساتھ اس عمل کو کرتے تھے اور پسند بھی فرماتے تھے، اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہاری دنیا میں سے مجھے: بیوی اور خوشبو محبوب ہیں۔) مسند احمد: (128/3) نسائی: (7/61) اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی نظروں کو جھکانے اور شرمگاہ کو محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہیں ہے تو وہ روزے رکھے؛ کیونکہ روزے اس کی شہوت کو توڑ دیں گے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (9/92) اور مسلم : (1400) نے روایت کیا ہے۔ " ختم شد
طب نبوی: (251)
اسلام میں جنسی تعلقات کے آداب:
بیوی کے ساتھ جنسی ملاپ کے لیے درج ذیل امور کا خیال کرنا لازم ہے:
1-ہم بستری کے لیے نیت یہ کریں کہ اللہ کو راضی کرنا ہے، اور ارادہ کریں کہ اس عمل سے اپنے آپ اور اپنی اہلیہ کو حرام سے بچانا ہے، اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے؛ تا کہ اس امت کی شان میں مزید اضافہ ہو؛ کیونکہ تعداد میں اضافہ عزت میں اضافہ ہے۔ پھر یہ بھی واضح رہے کہ اس عمل پر اسے اجر بھی ملے گا اگرچہ اسے لذت اور سرور بھی آئے گا، لیکن اجر بھی پائے گا۔ جیسے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنی اہلیہ کے ساتھ جماع کرنا بھی نیکی ہے۔) صحابہ کرام نے تعجب سے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم اپنی شہوت پوری کرتے ہیں تو کیا پھر اس میں بھی ہمارے لیے اجر ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اچھا تو بتلاؤ اگر غلط طریقے سے اپنی شہوت پوری کرے تو کیا اسے گناہ ہو گا؟ تو اسی طرح اگر حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کرے تو اس میں بھی اس کے لیے اجر ہو گا۔) مسلم: (720)
یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس امت پر خاص فضل ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس امت میں شامل فرمایا ہے۔
2-جماع سے پہلے خاوند اور بیوی دونوں باہمی عملی پیار محبت کا اظہار اور بوس کنار کریں؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اہل خانہ کے ساتھ پہلے پیار محبت اور بوس کنار کیا کرتے تھے۔
3-جس وقت جماع کرنے لگے تو کہے: بِسْمِ اللهِ اَللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا
ترجمہ: اللہ کے نام سے، یا اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ فرما، اور شیطان سے اسے بھی محفوظ فرما جو تو ہمیں عطا کرے گا۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر ان کے اس جنسی ملاپ سے انہیں اللہ تعالی نے اولاد دی تو شیطان اسے کبھی بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ صحیح بخاری: (9/187)
4-عورت کی اندام نہانی میں آلہ تناسل داخل کرے سمت چاہے آگے سے یا پیچھے سے کوئی بھی ہو، اور اندام نہانی سے مراد وہ جگہ ہے جہاں سے بچے کی پیدائش ہوتی ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ترجمہ: تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، تم اپنی کھیتی کو جہاں سے مرضی آؤ۔[البقرۃ: 223]
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : یہودی کہا کرتے تھے: جب کوئی مرد اپنی بیوی سے پچھلی سمت سے اندام نہانی میں جماع کرتا ہے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے!! اس پر یہ آیت نازل ہوئی: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ترجمہ: تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، تم اپنی کھیتی کو جہاں سے مرضی آؤ۔[البقرۃ: 223] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سامنے سے جماع کرو یا پیچھے سے لیکن ہو اندام نہانی میں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (8/154) اور مسلم : (4/156) نے روایت کیا ہے۔
کیا بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنا جائز ہے؟
5-کسی بھی حالت میں بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنا جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ترجمہ: تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، تم اپنی کھیتی کو جہاں سے مرضی آؤ۔[البقرۃ: 223] اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کھیتی والی جگہ اندام نہانی ہے، اور یہاں کھیتی سے مراد اولاد ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: (وہ شخص ملعون ہے جو عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرے) اس حدیث کو ابن عدیؒ : (211/1)نے روایت کیا ہے اور البانی ؒ نے آداب الزفاف: 105 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
کیونکہ یہ غیر فطری عمل ہے، اور سلیم الفطرت شخص اس عمل کو قطعا اچھا نہیں سمجھتا، پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنے سے عورت کو لذت نہیں بلکہ تکلیف ہوتی ہے، اور پچھلی شرمگاہ پاخانے کی جگہ ہے، اور اس کے علاوہ بھی وجوہات ہیں جس سے اس عمل کی حرمت مزید شدید ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1103 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
6- خاوند ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ ملاپ کر لے اور دوسری بار پھر ملاپ کا ارادہ رکھے تو پہلے وضو کر لے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور پھر دوبارہ بھی آنا چاہے تو پہلے وضو کر لے، وضو دوبارہ آنے کے لیے چست کر دے گا۔) مسلم: (1/171)
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم استحباب پر مبنی ہے، واجب نہیں ہے۔ تاہم اگر دو بار جماع کے درمیان غسل کا موقع ملے تو یہ افضل ہے، اس حوالے سے سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن اپنی سب بیویوں کے پاس گئے، پہلے ایک کے پاس غسل کیا، پھر اگلی بیوی کے پاس غسل کیا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ ایک ہی بار غسل فرما لیں؟! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس عمل میں زیادہ پاکیزگی، صفائی، اور طہارت ہے۔) اس حدیث کو ابو داود اور نسائی: (79/1) نے روایت کیا ہے۔
کس وقت غسل جناب فرض ہو گا؟
7-خاوند اور بیوی دونوں پر یا دونوں میں سے کسی ایک پر درج ذیل صورتوں میں غسل واجب ہو جائے گا:
پہلی صورت: جب دونوں کی شرمگاہیں آپس میں مل جائیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب شرمگاہ ، دوسری شرمگاہ سے تجاوز کر جائے تو غسل واجب ہو جائے گا۔) جبکہ دوسری روایت میں الفاظ ہیں کہ (جب شرمگاہ ، دوسری شرمگاہ سے مس کر جائے تو غسل واجب ہو جائے گا۔)اسے امام احمد ، اور امام مسلم: (526) نے روایت کیا ہے۔ اس صورت میں غسل واجب ہو جاتا ہے چاہے منی خارج ہو یا نہ ہو، یہاں شرمگاہ کے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ مرد کے آلہ تناسل کی ٹوپی عورت کی اندام نہانی کے اندر چلی جائے، محض ساتھ ملنا اور مس کرنا مراد نہیں ہے۔
دوسری صورت: منی خارج ہو جائے، چاہے شرمگاہیں آپس میں نہ ہی ملیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (پانی خارج ہونے سے پانی سے غسل فرض ہو جائے گا۔) مسلم: (1/269)
علامہ بغوی رحمہ اللہ شرح السنہ: (2/9) میں کہتے ہیں:
"غسل جنابت دو میں سے کوئی ایک چیز ہونے پر فرض ہو جاتا ہے: آلہ تناسل کی ٹوپی عورت کی اگلی شرمگاہ میں داخل ہو جائے، یا پھر مرد یا عورت کی منی اچھل کر نکلے۔" ختم شد
شرعی غسل کا طریقہ جاننے کے لیے سوال نمبر: (83172 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
میاں بیوی ایک ہی جگہ اکٹھے بھی غسل کر سکتے ہیں چاہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ بھی رہے ہوں ؛ اس لیے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ: آپ کہتی ہیں کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جو کہ میرے اور آپ کے درمیان ہوتا تھا، ہم باری باری اس برتن سے پانی لیتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم جلدی کرنے لگتے تو مجھے کہنا پڑتا: میرے لیے تو چھوڑ دیں، میرے لیے تو چھوڑ دیں۔ آپ مزید بتلاتی ہیں کہ: اس وقت ہم دونوں جنبی ہوتے تھے۔
یہ حدیث بخاری اور مسلم میں موجود ہے۔
8- جس پر غسل واجب ہو گیا ہے اس کے لیے اسی حالت میں سونا جائز ہے ، اور نماز سے پہلے تک غسل کو مؤخر کر سکتا ہے، تاہم تاکیدا مستحب یہ ہے کہ: سونے سے پہلے غسل کر لے، اس لیے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا: کیا ہم میں سے کوئی جنبی حالت میں سو سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جی ہاں سو سکتا ہے، لیکن اگر چاہے تو وضو کر لے۔) اس حدیث کو ابن حبان (232) نے روایت کیا ہے۔
کیا حیض کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کی جا سکتی ہے؟
9- دوران حیض بیوی کے ساتھ ہم بستری کرنا حرام ہے ؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
ترجمہ: آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ [البقرۃ: 222]
حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ جنسی ملاپ کرنے والا شخص ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے گا؛ جیسے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک صحابی نے اسی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ایک یا آدھا دینا صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا، اس حدیث کو اصحاب سنن نے روایت کیا ہے اور البانی نے آداب زفاف: 122 میں اسے صحیح کہا ہے۔
تاہم خاوند حیض کی حالت میں شرمگاہ کے علاوہ لطف اندوز ہو سکتا ہے، اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ: جب ہم سے کوئی حیض میں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے لنگوٹ وغیرہ باندھنے کا حکم دیتے ، پھر آپ اس کے ساتھ مباشرت کرتے تھے۔ بخاری و مسلم
کیا جماع کرتے ہوئے منی باہر خارج کرنا جائز ہے؟
10- خاوند منی کا اخراج باہر کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، اسی طرح کنڈوم وغیرہ بھی استعمال کر سکتا ہے بشرطیکہ بیوی اس چیز کی اجازت دے؛ کیونکہ بیوی کو بھی حصولِ لذت کا پورا حق ہے، اور حصولِ اولاد کا بھی۔ اس کی دلیل سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی روایت ہے ، آپ کہتے ہیں کہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں جماع کرتے ہوئے منی کا اخراج باہر کرتے تھے، تو یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نہیں روکا۔
اس حدیث کو امام بخاری: (9/250) اور مسلم : (4/160) نے روایت کیا ہے۔
لیکن بہتر یہ ہے کہ ان تمام امور سے پرہیز کیا جائے؛ کیونکہ اس سے عورت مکمل طور پر لذت حاصل نہیں کر پاتی، یا حصولِ لذت میں کمی آتی ہے، نیز اس سے نکاح کے کچھ مقاصد بھی فوت ہو جاتے ہیں، مثلاً: افزائش نسل کا تسلسل رک جاتا ہے۔
کیا خاوند اور بیوی کے راز فاش کرنا جائز ہے؟
11-خاوند اور بیوی دونوں پر ازدواجی زندگی کے راز فاش کرنا حرام ہے، بلکہ یہ انتہائی سنگین جرم ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں سب سے بد ترین درجے کا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس جائے اور پھر اس کے راز فاش کرے۔) مسلم: (4/157)
اسی طرح سیدہ اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھی دیگر مرد و خواتین بھی وہاں بیٹھے موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لگتا ہے مرد جو کچھ اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے وہ دوسروں سے بیان کرتا ہے، اور لگتا ہے کہ عورت بھی وہ کچھ بیان کرتی ہے جو وہ اپنے خاوند کے ساتھ کرتی ہے!؟) اس پر لوگ ایک دوسرے کو خاموشی سے تکنے لگے کوئی بولنے کی جرأت نہ کرے۔ تو میں نے کہا: جی ، اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ یہ عورتیں بھی ایسے کرتی ہیں اور یہ مرد بھی کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایسا مت کرو؛ یہ تو شیطان جیسی حرکت ہے کہ شیطان کو شیطاننی راستے میں ملی اور وہیں لوگوں کی نظروں کے سامنے اسے لٹا لیا۔) اس حدیث کو ابو داود: (1/339)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے آداب زفاف: (143) میں صحیح قرار دیا ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں جماع کے مختصراً آداب ہیں، اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس عظیم دین کی سمجھ عطا فرمائی کہ جس میں اتنے بلند آداب ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں دنیا و آخرت میں کام دینے والی چیزوں کی ہدایت دی۔ اور آخر میں درود ہوں ہمارے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات