اسلام ميں خنزير اور گدھے كے گوشت كى حرمت كا سبب كيا ہے، اور كيا خوراك اور كھانے والوں كى طبيعت ميں كوئى تعلق پايا جاتا ہے ؟
خوراك اور كھانے والے كى طبعيت ميں تعلق
سوال: 5905
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" خوراك كھانے جس چو چيز خوراك كھا رہا ہے اس كى طبيعت اور فعل ميں اس كى شبيہ ہے، جس طرح اللہ تعالى كى حكمت مخلوق پيدا كرنے ميں ہے، اسى طرح اس كى شرع اور اس كے احكام ميں حكمت ہے، وہ اس طرح كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر خبيث اور ناپاك اشياء بطور خوراك حرام كى ہيں، كيونكہ جب وہ ان اشياء كو بطور خوراك استعمال كرينگے تو وہ اس كا جزء بن جائيگى تو ان كے اجزاء ان كى خوراك كے مشابہ ہو جائينگے، كيونكہ خوراك كھانے والا خوراك كى شبيہ ہے.
بلكہ وہ تو جوہر ميں بدل جاتى ہے، اس ليے نوع انسانى اپنى خوراك كے اعتدال كى بنا پر مزاج ميں سے زيادہ معتدل ہے، خون اور چير پھاڑ كرنے والے جانوروں كے گوشت كى خوراك تناول كرنا كھانے والے ميں چير پھاڑ كرنے اور لوگوں پر زيادتى كرنے كى شيطانى قوت پيدا كرتا ہے.
اس ليے شريعت كا اس طرح كى خوراك حرام كرنا شريعت كے محاسن ميں شامل ہوتا ہے، ليكن جب اس كے مدمقابل كوئى اس سے بھى زيادہ راجح مصلحت ہو، مثلا ضرورت كى حالت ميں، اس ليے جب عيسائيوں نے خنزير كا گوشت كھايا تو ان ميں ايك قسم كى سختى اور شدت پيدا ہو گئى.
اسى طرح جو وحشى جانوروں اور كتوں كا گوشت كھاتا ہے اس ميں اس كى قوت بن جاتى ہے، اور جب شيطانى قوت كچلى والے وحشى جانوروں ميں ثابت ہے تو شريعت نے اسے حرام قرار دے ديا، اور جب اونٹ ميں شيطانى قوت تھى تو شريعت نے اونٹ كا گوشت كھانے والے كے ليے وضوء كے ساتھ توڑنے كا حكم ديا.
اور جب گدھے كى حمارى طبيعت گدھے كو لازم تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گھريلو گدھے حرام قرار دے ديے، اور جب خون شيطان كا مركب اور اس كے سرايت ہونے كى جگہ تھى تو اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے لازمى حرام كر ديا.
اس ليے جو كوئى بھى اللہ تعالى كى مخلوق اور اس كے حكم كى حكمت ميں غور و فكر كرتا اور وہ ان دونوں كے درميان طبيق ديتا ہے تو اس كے ليے اللہ تعالى اور اس كے اسماء و صفات كى معرفت كا ايك عظيم باب كھل جاتا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: التبيان فى اقسام القرآن تاليف ابن قيم ( 1 / 236 )