کیا اسلامی عقیدہ محض نظریات کا نام ہے یا اسلامی عقیدے میں کردار اور عملی منہج بھی شامل ہے؟ اسلامی عقیدہ سیکھنے کے لیے کون سی کتب کا مطالعہ کیا جائے؟ موجودہ دور میں اسلامی عقیدے کا نفاذ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور عقیدہ سیکھنے کے ذرائع کون کون سے ہو سکتے ہیں؟ کیا اسلام کے کسی حکم پر عمل کرنا اور کسی حکم پر عمل نہ کرنا عقیدے میں خلل کا باعث ہے؟ مثلاً: نماز تو پڑھتا ہے لیکن زکاۃ نہیں دیتا، یا نظروں کی حفاظت نہیں کرتا وغیرہ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ عقیدے میں خلل ہے؟ کیا آج مسلمانوں کو عقیدہ سکھانے والے کی ضرورت ہے؟ امید ہے کہ آپ ہمیں ایسی ہدایات دیں گے جو صحابہ کرام کے طریقے پر صحیح عقیدہ سیکھنے میں معاون ہوں گی۔
اسلامی عقائد محض نظریات نہیں بلکہ مکمل عملی نظام زندگی ہے، اور اسلامی عقیدے سے متعلق اہم کتب
سوال: 59911
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اسلامی عقیدہ محض نظریاتی اور فلسفی منہج نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقی عملی منہج کا حامل عقیدہ ہے؛ کیونکہ اسلامی عقیدے میں عمل بنیادی ترین چیز ہے، اسی لیے اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، یا یوں کہیں کہ: زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضا سے عمل کا نام ہے۔
لہذا گر کوئی شخص اللہ تعالی کو اپنا الہ اور رب مانتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی نماز اور زکاۃ وغیرہ کی شکل میں اس کی بندگی اور اطاعت ضرور کرتا ہے۔
اسی طرح آخرت کے دن اور اس دن ہونے والے حساب اور جزا پر ایمان لانے والا شخص اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور ممنوعہ کاموں سے اپنے آپ کو روکتا ہے۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والا شخص لازمی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل کرتا ہے اور سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات آگے پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔
یعنی انسان کا عقیدہ اس کے اعمال اور اقوال سے چھلکتا ہے، اس کی محنت اور لگن سب کچھ عقیدے کا ترجمان ہوتا ہے، جس قدر دل میں ایمان زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے اعضا پر اس کے اثرات اتنے ہی زیادہ نظر آتے ہیں۔
اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گیا تو سارے کا سارا جسم صحیح ہو جائے گا، اور جب وہ خراب ہو گیا تو سارے کا سارا جسم ہی خراب ہو جائے گا، یقیناً وہ دل ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (52) اور مسلم : (1599) نے روایت کیا ہے۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایمان محض تمنا اور ظاہری زیب و زینت کا نام نہیں ہے، بلکہ ایمان قلبی اعتقاد اور اس اعتقاد کی عملی تصدیق ایمان کہلاتی ہے۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر دل علم اور قلبی اعمال کی بدولت صحیح ہوا تو اس کا لازمی اثر یہ ہو گا کہ جسمانی اقوال و افعال بھی اچھے ہو جائیں گے۔ جیسے کہ محدثین کرام کا کہنا ہے کہ: ایمان قول و عمل کا نام ہے، چاہے یہ قول ظاہری ہوں یا باطنی، اسی طرح عمل بھی ظاہری ہوں یا باطنی۔ انسان کا ظاہر بھی باطن کے تابع ہوتا ہے، لہذا جب باطن درست ہو تو ظاہر بھی ٹھیک اور اگر باطن خراب ہو تو ظاہر بھی خراب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز میں فضول حرکتیں کرنے والے کے بارے میں ایک صحابی مکرم نے کہا تھا: اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضا پر بھی خشوع کے اثرات رونما ہوتے۔" ختم شد
مجموع الفتاوى (7/187)
دوم:
عقیدہ سیکھنے کے لیے جن کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ بہت سی کتابیں ہیں، ان کتابوں میں سے سب سے عظیم کتاب قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین ہیں؛ کیونکہ ان دونوں کو تھامنے والا در حقیقت کامیاب ہو گا۔ علمائے کرام نے بھی صحیح عقیدہ بیان کرنے اور اسے پھیلانے کا بھر پور اہتمام کیا ہے، اور اس کے لیے بے شمار کتابیں لکھی ہیں، ان میں سے مشہور ترین کتب میں : عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی کتاب: السنۃ، اسی طرح ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی التوحید، علامہ لالکائی رحمہ اللہ کی کتاب شرح اصول اعتقاد اہل السنہ، صابونی رحمہ اللہ کی کتاب عقیدۃ السلف و اصحاب الحدیث، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب عقیدہ واسطیہ، اسی طرح عقیدہ طحاویہ اور ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کی اس پر شرح، علامہ سفارینی رحمہ اللہ کی کتاب: لوامع الانوار البہیہ ، حافظ حکمی رحمہ اللہ کی :معارج القبول ، علامہ صالح الفوزان کی الارشاد الی صحیح الاعتقاد ۔ آخر الذکر کتاب دیگر تمام کتابوں کی بہ نسبت آسان اور تفصیلی ہونے کے ساتھ نہایت مفید بھی ہے۔
سوم:
حقیقی زندگی میں عقیدے کا نفاذ کیسے ہو گا؟ اس کے لیے عقیدہ سکھائیں، پھیلائیں، اس کی دعوت دیں، اور اس عقیدے کے مخالف لوگوں پر حکمت، اور اچھے طریقے سے رد کریں، اس طرح صحیح عقیدہ پھیلتا چلا جائے گا، اور اس کے مثبت آثار بھی رونما ہوں گے، صحیح عقیدے کے سائے تلے سب لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔
چہارم:
عقیدہ سیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدہ جاننے اور اس پر عمل کرنے والے اہل علم سے براہ راست سیکھا جائے، عقیدہ سیکھنے کا یہی ایک سلامتی والا اور مفید طریقہ کار ہے، اگر کسی کے پاس یہ سہولت میسر نہ ہو کہ اس کے قریب اہل علم نہ ہوں بلکہ وہ کسی دور دراز علاقے کا رہائشی ہے تو ایسے شخص کو چاہیے کہ راسخ اہل علم کی کتابوں، اور ریکارڈ شدہ دروس سنے، اور جو چیز سمجھ میں نہ آئے اس کی وضاحت کے لیے اہل علم سے رجوع کرے۔
پنجم:
اگر کوئی شخص اسلام کے بعض احکامات پر عمل کرے اور کچھ پر عمل نہ کرے، مثلاً: کوئی چند فرائض پر عمل کرے یا کسی حرام کام کا ارتکاب کرے تو یہ اس کے ایمان میں کمی کی علامت ہے، ایسی منفی حرکتیں اس کی اللہ تعالی اور اس کے دین کے ساتھ محبت اور یقین میں کمی کی علامت ہیں؛ لہذا یہ یقینی طور پر عقیدے میں خلل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے ہاں عقیدے کی بنیادی چیز ہے کہ ایمان نیکی کرنے سے بڑھتا ہے اور نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے، پھر یہ کمی بسا اوقات یہاں تک بھی پہنچ جاتی ہے کہ ایمان سرے سے ختم کر دے، ایسی صورت میں وہ شخص مرتد ہو جائے گا۔ جیسے کوئی شخص نماز بالکل چھوڑ دے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (5208 ) اور (2182 )کا جواب ملاحظہ کریں۔
جبکہ اگر نافرمانی کفر کی حد تک نہ پہنچے ، مثلاً: زکاۃ ادا نہ کرنا، یا نظروں کی حفاظت نہ کرنا وغیرہ تو یہ سب ایمان میں کمی کا باعث ہیں۔
ششم:
مسلمانوں کو کتاب و سنت پر مبنی سلف صالحین کے فہم کے مطابق صحیح عقیدہ سکھانے والوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے؛ کیونکہ اس وقت جہالت بہت زیادہ ہے، بدعات اور خرافات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں، اسی طرح فکری طور پر منحرف فرقے بہت زیادہ متحرک ہیں۔
اس لیے ہر مسلمان کی ذاتی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ پہلے خود صحیح اسلامی عقیدہ سیکھے، اور عقیدہ صحیح اور صاف مصادر سے حاصل کرے۔ پھر اسے آگے پھیلائے اور لوگوں کو سکھلائے، اس کے لیے معتمد اہل علم کے دروس، لیکچرز، کتابیں اور لٹریچر سے استفادہ کرے، تا کہ تبلیغ کا فریضہ ادا ہو، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلا تَكْتُمُونَهُ ترجمہ: اور جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم اسے لوگوں کے لیے بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں۔[آل عمران: 187] اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ترجمہ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو خیر کی دعوت دے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ [آل عمران: 104]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے: قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: کہہ دیجیے یہ میرا راستہ ہے ۔ میں اور میرے پیروکار بصیرت پر ہوتے ہوئے اللہ تعالی کی جانب دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالی پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ [یوسف: 108]
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات