ميرے ايك دوست نے رياض سعودى عرب ميں مقيم ايك لڑكى سے شادى كى جو اپنے گھر والوں كے ساتھ رہتى ہے، ليكن يہ عقد نكاح رجسٹر نہيں كروايا گيا اور نہ ہى كسى عالم دين كے سامنے ہوا ہے، بلكہ دولہا كے دوستوں كى موجودگى ميں جن ميں سے ايك بطور مولانا صاحب اور دوسرے دو گواہوں كى صورت ميں لڑكى كے والد كى موجودگى ميں نكاح ہو، اور يہ عقد نكاح لكھا بھى نہيں گيا.
يہ علم ميں رہے كہ ڈيڑھ برس بعد لڑكى مستقل طور پر اپنے ملك واپس چلى جائيگى اور اس وقت دولہا اسے طلاق دے ديگا كيونكہ لڑكى كے والد نے شرط ركھى ہے كہ يہ نكاح اس وقت تك قائم رہے گا جب تك وہ رياض ميں ہيں، اور جب وہ يہاں سے جائينگے تو لڑكا لڑكى كو طلاق دے ديگا سوال يہ ہے كہ:
اس قسم كى شادى كا حكم كيا ہے ؟
دولہا كے دوستوں نے جو كچھ كيا ہے اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
ملك سے واپس جانے كى صورت ميں لڑكى كو طلاق دينے كى شرط
سوال: 59929
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر تو شادى مؤقت ہو يعنى اس كا وقت مقرر كيا گيا ہو مثلا ايك ماہ يا ايك برس يا پھر تعليم يا اقامہ ختم ہونے وغيرہ تك تو يہ نكاح متعہ كہلاتا ہے جو كہ جمہور اہل علم كے ہاں باطل اور حرام ہے، اور اس كے حرام ہونے پر اجماع بيان كيا گيا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ( نكاح متعہ جائز نہيں ) نكاح متعہ كا معنى يہ ہے كہ كوئى شخص كسى عورت سے معين مدت كے ليے نكاح كرے مثلا كہے كہ ميں نے اپنى بيٹى كى شادى ايك ماہ يا ايك برس يا پھر موسم ختم ہونے يا حاجى آنے يا اس طرح كى كوئى اور مدت تك كى، چاہے وہ مدت متعين اور معلوم ہو يا پھر مجہول ہو معلوم نہ ہو تو يہ نكاح باطل ہے.
امام احمد نے اس كو بيان كرتے ہوئے كہا ہے: نكاح متعہ حرام ہے …. عام صحابہ كرام اور فقھاء كا يہى قول ہے، اور اس كى حرمت عمر اور على اور ابن عمر اور ابن مسعود اور ابن زبير رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
متعہ كى حرمت كے قول ميں امام مالك، اور اہل مدينہ اور اہل عراق ميں ابو حنيفہ اور اہل شام ميں اوزاعى اور اہل مصر ميں ليث اور امام شافعي اور سب اصحاب الآثار شامل ہيں ” انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 136 ).
يہ نكاح حرام ہے كسى شخص كے ليے بھى يہ نكاح پڑھانا اور اس ميں گواہى دينا اور ايسا نكاح كرانا جائز نہيں.
اور جس شخص نے بھى ايسا كيا اور اس ميں حصہ ليا تو اسے اپنے اس فعل پر توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اسى طرح اس مرد اور عورت كے مابين تفريق اور عليحدگى كر دينى چاہيے.
دوم:
نكاح متعہ كى ايك اور بھى صورت ہے وہ يہ كہ اگر كسى شخص نے كسى عورت سے اس شرط پر شادى كى كہ وہ ايك مقررہ اور معين وقت ميں اسے طلاق دے ديگا.
ان دونوں صورتوں ميں فرق يہ ہے كہ: پہلى صورت ميں شادى كے وقت پر اتفاق موجود ہے، وہ اس طرح كہ جب وہ مدت اور وقت ختم ہو جائے تو نكاح بھى ختم ہو جائيگا اور طلاق كى ضرورت نہيں رہے گى.
اور دوسرى صورت ميں يہ ہے كہ شادى كى مدت مقرر نہيں ليكن شرط ركھى جاتى ہے كہ معين وقت ميں طلاق ہو گى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ( اور اگر وہ اس شرط پر عورت سے شادى كرے كہ وہ اسے معين وقت ميں طلاق ديگا تو نكاح منعقد ہى نہيں ہو گا ) يعنى: جب عورت سے اس شرط پر شادى كرے كہ وہ معين وقت ميں طلاق ديگا تو يہ نكاح صحيح نہيں چاہے وہ وقت معلوم ہو يا مجہول مثلا: يہ شرط ركھى جائے كہ جب اس كا باپ يا بھائى آئے تو اسے طلاق دى جائيگى.
كيونكہ يہ شرط نكاح كے باقى رہنے ميں مانع بن رہى ہے اس ليے يہ نكاح متعہ كے مشابہ ہوا ” انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 7 / 137 ).
مستقل فتوى كميٹى سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو اپنے ملك سے دور سفر پر ہو اور ايك عورت سے شادى اس شرط پر كرے كہ جب وہ اپنے ملك واپس جائيگا تو اسے طلاق دے ديگا ؟
تو كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” خاوند كے واپس سفر كرنے تك نكاح جائز نہيں، كيونكہ يہ نكاح متعہ ہے اس ليے كہ نكاح اور شادى كى مدت خاوند كے سفر كے ساتھ محدود كى گئى ہے ” اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 444 ).
سوم:
جب عقد نكاح ميں شروط اور اركان پورى ہوں يعنى ايجاب و قبول اور خاوند اور بيوى كى رضامندى اور ولى كى موجودگى اور گواہ ہوں تو نكاح صحيح ہے، چاہے وہ نكاح رجسٹر اور تصديق نہ بھى كرايا جائے، ليكن يہ ہے كہ تصديق اور رجسٹر كرانا اہم ہے كيونكہ اس طرح خاوند اور بيوى اور دونوں كى اولاد كے حقوق محفوظ ہو جاتے ہيں، اور نكاح رجسٹرار يا قاضى كى عدم موجودگى كوئى نقصاندہ نہيں، اور اسى طرح دوستوں ميں سے كسى ايك شخص كا عقد نكا پڑھانے ميں بھى كوئى ضرر نہيں ہے.
عقد نكاح كى شروط اور اس كے اركان كى معرفت كے ليے آپ سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن صورت مسئولہ ميں جس طرح عقد نكاح كيا گيا ہے وہ حرام ہے صحيح نہيں، اس ليے جس شخص نے بھى عقد نكاح كيا اور گواہى دى ہے وہ اس حرام فعل سے توبہ كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات