کیا یہ ممکن ہے کہ آپ رابعہ عدویہ کے مختصرحالات زندگی اورکچھ معجزات کا بارہ میں بتائيں ؟
کیا یہ شروع سے ہی مسلمان تھی ؟ اوریہ زاھدہ خاتون کیوں بنی ؟
رابعہ عدویہ کون تھی
سوال: 5994
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رابعہ عدویہ ایک عابدہ زاھدہ اورخاشعہ عورت تھی امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے سیراعلام النبلاء ( 8 / 241 ) میں ابوسعید بن الاعرابی کا قول نقل کرتے ہوۓ بھی اس طرح کہا ہے :
رابعہ عدویہ سے لوگوں نے حکمت کی باتیں لیں ، رابعہ کے متلعق جویہ کہا جاتا ہے کہ وہ حلول کا اعتقاد رکھتی اوراباحیۃ کی دعوت دیتی تھی اس میں سفیان اورشعبہ رحمہ اللہ تعالی نے وہ کچھ بیان کیا ہے جواس دعوی کوباطل قرار دیتا ہے رابعہ کا یہ عقیدہ تھا ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : یہ غلواورجہالت ہے ، اورہوسکتا ہے کہ رابعہ کی طرف یہ منسوب کرنے والا حلولی اوراباحی ہوتاکہ وہ اس کلام سے اس کے کفرپردلیل بنا سکے ، جس طرح کہ انہوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے ( میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ) ۔
رابعہ عدویہ سے کوئ بھی معجزات یا کرامات معروف نہیں سواۓ اتنی اشیاء کے جوزھدو اورحکمت کی کلام منقول ہے ، مثلا اس نے سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالی کوکہا تھا کہ :
تم توکچھ ایام ہو جب ایک دن ختم ہوجاۓ توآپ کاکچھ حصہ چلا گیا ، توجب کچھ حصہ ختم ہوگيا توسب کا سب بھی جاسکتا ہے اوراس کا آپ کوعلم بھی ہے ، اب چاہیے تو یہ کہ آپ عمل کریں ۔
رابعہ کا یہ بھی قول ہے : میں اپنے قول استغفراللہ میں قلت صدق سے اللہ تعالی سے معافی کی طلبگارہوں ۔
عبدہ بنت ابی شوال کہتی ہے جوکہ بہت ہی اچھی اللہ تعالی کی بندی اوررابعہ کی خدمت گزار تھی اس کا کہنا ہے کہ :
رابعہ ساری رات نماز پڑھتی رہتی اورجب طلوع فجرہوتی تواپنی نمازوالی جگہ پرہی تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگاتی حتی کہ فجر کی سفیدی پیدا ہوجاتی تومیں سن رہی ہوتی کہ وہ اپنی سونے والی جگہ سے گھبرائ ہوئ ہڑبڑا کریہ کہتی ہوئ اٹھتی : میری جان کتنا دیرسوتی رہوں گی ؟ کتنی دیرتم قیلولہ کرتی رہوگی ، ہوسکتا کہ توسوجاۓ اورپھر اٹھنا نصیب ہی نہ ہو اورمیدان محشرمیں جانے کے لیے ہی اٹھے ۔
عبدہ کہتی ہیں کہ رابعہ کی یہی عادت رہی حتی کہ انہیں موت نے آلیا ۔
کہا جاتا ہے کہ وہ اسی برس کی عمر تک زندہ رہیں اوربالآخر ( 180 ) ھجھری میں اس دارفانی سے کوچ کرگئيں ۔
دیکھیں شزرات الذھب ( 1 / 193 ) اورصفۃ الصفوۃ ( 4 / 27 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد