سوال: میں منہج اہل سنت و الجماعت کا داعی ہوں، میں نے عرصہ تین سال قبل شرعی دم کرنا شروع کیا، اس کیلئے عمدہ قواعد و ضوابط کا اہتمام کر رکھا تھا اور اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ پیسے بھی لیتا تھا، تاہم اس کیلئے میری طرف سے کوئی پابندی بھی نہیں تھی۔
ہوا یوں کہ اللہ تعالی نے مجھے مقبولیت سے نوازا ، اور بہت سے لوگوں کو میرے ہاتھوں شفا نصیب ہوئی، اور بہت سے لوگوں کو میری وجہ سے سیدھا راستہ ملا، انہیں عقیدہ توحید ملا اور شرک سے بیزاری نصیب ہوئی، لیکن کچھ شعبدہ باز، اور منفی پراپیگنڈہ کرنے والے لوگوں نے اس عمل کو بدعت اور حرام کمائی قرار دیا ۔
لیکن پھر بھی لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی، اور مجھے لوگوں کے رش کی وجہ سے تنگی ہونے لگی، کیونکہ دم کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے، ان سب امور کے باوجود میں اپنے انتہائی سادہ سے گھر میں ہی لوگوں کو دم کرتا رہا، لوگوں کی کثرت کی وجہ سے میرے گھر والے بھی تنگ پڑ گئے، اور یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ میں اپنے گھر والوں کے واجبات میں کوتاہی کرنے لگا، اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ میرے در پر آتے اور میں کسی کو انکار کرتے ہوئے شرما جاتا تھا۔
اس کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کوئی دکان کرائے پر لے لوں، اور اس جگہ پر شرعی دم اور سنگی لگانے کا اہتمام کیا جائے اور ہر مریض سے مثال کے طور پر 20 ریال لوں، تا کہ دکان کا کرایہ اور میری ضروریات زندگی بھی پوری ہوں۔
لیکن بعض مدعیان علم کی طرف اس کی بھر پور مذمت کی گئی، کہ کسی دکان کو اسی کام کیلئے مخصوص کرنا بدعت ہے، اور سلف صالحین سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے، نیز اس انداز سے کی ہوئی کمائی حرام ہے، تو کیا میرے لئے شرعی دم کی دکان بطور مطب برائے حجامہ [سنگی] و شرعی دم ، کھولنا جائز ہے، جس میں کچھ فیس بھی مقرر کر لوں، ویسے بھی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، اور میں کافی ضرورت مند بھی ہوں، میرے ذمہ اپنے اہل و عیال کی کفالت ہے، اور میں ایک دائمی مرض میں بھی مبتلا ہوں، جس کی وجہ سے میں وزنی کام نہیں کر سکتا، اور لوگوں کو بھی ایسے دم کرنے والے عاملوں کی ضرورت ہے، جو انہیں عقیدہ توحید کی طرف بلائیں، اور شرک سے دور رکھیں۔
قرآنی دم سنٹر کے جائز ہونے کے باوجود اگر مجھے کوئی اور کام بھی مل جائے تو میں کیا کروں؟
1- کیا میں شرعی دم کا کام چھوڑ دوں؟ حالانکہ ایسے کرنے میں کافی نقصانات ہیں جیسے یہ کہ ایک اچھا کام رک جانے کے باعث کافی خلا پیدا ہوگا۔
2- کیا میں دونوں کام جاری رکھوں، اور دونوں کاموں کو ایک دوسرے سے جدا جدا چلاؤں۔
3- کیا میں نوکری وغیرہ بالکل چھوڑ دوں، اور صرف دم کرتا رہوں، کیونکہ دم کرنے کا فائدہ متعدی ہے ، جس سے دوسرے مسلمانوں کو فائدہ بھی ہو گا ۔
اور اگر قرآنی دم سنٹر کھولنا منع ہے تو پھر۔۔
1- کیا میں دم کرنا بالکل ترک کر دوں؟
2- یا میں اپنے گھر ہی میں لوگوں کو دم کروں اور الگ سے دکان مت بناؤں، اور اس بنا پر لوگوں سے ملنے والی تکالیف پر صبر کروں؟
کیا شرعی دم اور سنگی لگانے کیلئے دکان کھولنا جائز ہے؟
سوال: 60162
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ذکر کی ہے کہ آپ شرعی دم کرتے ہیں، اور لوگوں کو اسکی ضرورت بھی ہے، تو ہم آپ کیلئے بارگاہِ الہی میں دعا گو ہیں کہ آپ کو اس عمل پر اجر و ثواب، کامیابی، اور رہنمائی عطا فرمائے، اور آپکے لئے اس کام کے بدلے میں کچھ اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا:
ہم کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے ہیں جو قرآن مجید کے ذریعے علاج کرتے ہیں، یہ لوگ پانی یا خوشبو دار تیل پر جادو، نظر بد، اور آسیب زدہ کے علاج کیلئے قرآنی اور مسنون ثابت شدہ دعائیں پڑھتے ہیں، اور اپنے اس عمل پر کچھ اجرت بھی لیتے ہیں، تو کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے، اور کیا تیل یا پانی وغیرہ پر قرآنی دعائیں وغیرہ پڑھنے کا وہی اثر ہے جو براہِ راست مریض پر پڑھنے کا ہوتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
مریض پر دم کرنے کے بعد اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ثابت ہے کہ : “صحابہ کرام کی ایک جماعت کسی عرب قبیلے کے پاس گئے تو انہوں نے انکی کوئی ضیافت نہیں کی، اسی دوران انکے سربراہ کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا، انہوں نے ا س کے علاج کیلئے تمام حربے آزما لئے؛ لیکن جب کوئی فائدہ نہ ہوا تو یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ: “کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے؟ ہمارے سربراہ کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا ہے” تو صحابہ کرام نے کہا: “ہاں ہے!، لیکن تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لئے ہم اجرت لئے بغیر دم نہیں کرینگے” چنانچہ صحابہ کرام نے بکریوں کے ایک ریوڑ کے بدلے میں دم کرنے کیلئے معاہدہ کر لیا، تو کسی صحابی نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو شفا یاب ہو گیا، قبیلے والوں نے حسبِ معاہدہ بکریوں کا ریوڑ دے دیا، اب صحابہ کرام نے آپس میں یہ صلاح مشورہ کیا کہ : اس وقت تک اس ریوڑ کے ساتھ کچھ نہیں کرینگے جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر نہ دے دیں، چنانچہ جس وقت صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں خبر دی، تو آپ نے فرمایا: (تم نے ٹھیک کیا)” بخاری:(2115) مسلم: (4080)
پانی یا تیل وغیرہ پر کسی مریض یا جادو زدہ اور پاگل پن کا علاج کرنے کیلئے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم مریض پر پھونک مار کر پڑھنا زیادہ بہتر اور افضل ہے، اس بارے میں ابو داود رحمہ اللہ نے حسن سند کیساتھ بیان کیا ہے کہ : “نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس کیلئے پانی پر پڑھا اور پھر پانی اس پر ڈال دیا”
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جب تک دم میں شرک نہ ہو تو اس وقت تک دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ) مسلم: (4079)
چنانچہ اس حدیث میں مریض پر براہِ راست دم کرنے ، یا پانی اور تیل وغیرہ دم کر کے دینے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے” انتہی
“مجموع فتاوى ابن باز” (19/338)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“ایک آدمی لوگوں پر پیسے لیکر دم کرتا ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دم ہی آتے ہیں، اس بارے میں وہ معتمد اہل علم کی رائے بھی لیتا ہے، [اسکا کیا حکم ہے؟]”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے بیان کی گئی ہے کہ آپ مریضوں کا علاج شرعی دم کے ساتھ کرتے ہیں، اور آپ لوگوں کو انہی الفاظ سے دم کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، اور اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر معروف کتابوں میں ذکر کردہ الفاظِ دم ہی استعمال کرتے ہیں، اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی جانب سے “زاد المعاد” میں اور دیگر اہل السنہ و الجماعہ کی کتب سے آپ لیتے ہیں تو آپکا عمل جائز ہے، آپکو اس کوشش اور جد و جہد پر اجر بھی ملے گا، اور اگر آپ اس عمل کے بدلے میں کچھ اجرت بھی لیتے ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ آپ کے سوال میں ذکر کردہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اس کام کی دلیل ہے” انتہی
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مراد وہی حدیث ہے جس میں زہریلے جانور کے ڈسے ہوئے شخص کو سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا گیا۔
چنانچہ جو دم جائز ہوگا، اس دم پر اجرت لینا بھی جائز ہوگا، اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ یہ کام گھر میں کریں یا کسی کرائے کی دکان پر کریں، یا اہل خانہ کو مشقت سے بچانے کیلئے کسی مخصوص مکان میں کریں۔
اس عمل کو منع کرنے والے افراد کوئی قوی وجوہات پیش نہیں کر سکے، کہ اس طریقے سے کمائی کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ جب دم کرنا جائز ہے ، اور اس پر اجرت لینا بھی جائز ہے، تو اس عمل کو بطورِ پیشہ اپنانے پر حرام ہونے کا فتوی لگانا جہالت کی علامت ہے۔
اور امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری کی : “کتاب الاجارہ” میں باب قائم کیا ہے : “باب ہے: عرب قبیلے پر فاتحہ پڑھ کر دم کی اجرت کے بارے میں” ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اجرت حاصل کرنے کیلئے سب سے زیادہ حقدار شے کتاب اللہ ہے)” انتہی
دوم:
پہلے سوال نمبر: (71303) میں علمائے کرام کا سنگی لگا کر اجرت لینے کے بارے میں اختلاف کا تذکرہ ہو چکا ہے، اور اس بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ سنگی لگا کر اجر ت لینا جائز ہے، حرام نہیں ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مکروہ سمجھتے ہوئے منع فرمایا، حرام سمجھتے ہوئے منع نہیں فرمایا۔
سوم:
آپ دم اور حجامہ [سنگی]کیساتھ علاج کیلئے مخصوص کلینک کھول سکتے ہیں، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، اور اگر آپ کو کوئی اور کام بھی مل جائے تو تب بھی آپ پر دم کرنے کا عمل ترک کرنا ضروری نہیں ہے، اور آپ چاہو تو اپنی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں کاموں کو یکبارگی بھی چلا سکتے ہو، کہ آپکو اور آپ کے اہل خانہ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
بیماروں کو دم کرنا انہیں دعوت دینے ، انکی اصلاح اور رہنمائی کرنے میں بہت ہی مفید اور کارگر ثابت ہوتا ہے -جیسے کہ آپ نے بھی ذکر کیا ہے- تو ایسی صورت میں یہ کام ترک کرنا مناسب نہیں ہے، چاہے آپ کو اس کے متبادل کے طور پر کوئی اور ذریعہ معاش ہی کیوں نہ مل جائے، کیونکہ اس سے دوسروں کا بھلا ہوگا، اور انہیں فائدہ ہوگا۔
یہاں یہ بات لازمی طور پر ذہن نشین رہے کہ معالج اللہ تعالی کو اپنا نگہبان سمجھے، ظاہری و باطنی ہر طور سے تقوی اختیار کرے، لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے، اجرت یا دوا کی قیمت لینے کیلئے لوگوں کو مجبور مت کرے، اور انہیں یہ بھی بتلائے کہ شفا اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، انہیں یہ بھی نصیحت کرے کہ اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی توبہ کریں، کیونکہ عموما انہی کی وجہ سے آزمائشیں اور تکلیفیں آتی ہیں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات