0 / 0

كيا نماز تراوايح جماعت كے ساتھ ادا كى جائيں يا اكيلے؟ اور كيا رمضان ميں قرآن كريم ختم كرنا بدعت ہے ؟

سوال: 65572

ميں نے سنا ہے كہ جس طرح نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين بار كے علاوہ اكيلے نماز تراويح ادا كى ہے اسى طرح اكيلے ادا كرنا مندوب ہے، تو كيا يہ بات صحيح ہے ؟
ميں نے يہ بھى سنا ہے كہ رمضان المبارك ميں نماز تراويح ميں پورا قرآن مجيد ختم كرنا بدعت ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا نہيں كيا، كيا يہ صحيح ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

رمضان المبارك ميں نماز تراويح اور قيام باجماعت بھى مشروع ہے، اور اكيلے بھى مشروع ہے، اور جماعت كے ساتھ ادا كرنا اكيلے نماز تراويح ادا كرنے سے افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كئى راتيں صحابہ كرام كو باجماعت قيام كروايا ہے.

صحيحين ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين راتيں صحابہ كرام كو قيام كروايا، اور جب تيسرى يا چھوتى رات تھى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر سے نہ نكلے، اور جب صبح ہوئى تو فرمايا:

" ميں تمہارى طرف اس ليے نہيں نكلا كہ مجھے خدشہ تھا كہ كہيں تم پر فرض نہ كر ديا جائے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1129 ).

اور مسلم كے الفاظ يہ ہيں:

ليكن ميں اس سے ڈرا كہ تم پر رات كى نماز فرض كى دى جائے اور تم اسے ادا كرنے سے عاجز رہو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 761 ).

لہذا نماز تراويح كى جماعت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت سے ثابت ہے، اور نبى كريم صلى اللہ وسلم نے تسلسل كے ساتھ جماعت نہ كروانے كا سبب اور مانع بھى ذكر كر ديا، وہ يہ كہ كہيں فرض نہ كر دى جائے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف اور خدشہ زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو وحى منقطع ہو گئى، تو اس طرح اس كى فرضيت كا خدشہ جاتا رہا.

لہذا جب علت جو كہ فرض ہونے كا خدشہ اور خوف تھا وہ وحى منقطع ہو جانے سے زائل ہو چكى تو اس وقت اس كى سنت واپس پلٹ آئے گى.

ديكھيں: الشرح الممتع للشيخ ابن عثيمين ( 4 / 78 ).

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور اس ميں ہے كہ: رمضان المبارك كا قيام كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں سے ہے، قيام كرنا مرغوب و مندوب ہے، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسى چيز كا احيا كيا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو محبوب تھى اور ان كى رضا تھى، اور اس قيام پر مواظبت سے منع صرف اس ليے كيا گيا كہ كہيں امت پر فرض نہ ہو جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے بڑے نرم اور خير خواہ تھے.

جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ معلوم كيا اور انہيں يہ معلوم تھا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كے بعد فرائض ميں نہ تو كمى كى جا سكتى ہے، اور نہ ہى زيادتى، تو انہوں نے لوگوں كے ليے اس كا احيا كيا اور لوگوں كو قيام كرنے كا حكم ديا، اور يہ دس ہجرى ميں تھا، يہ سب اللہ تعالى كا ان پر فضل و كرم تھا.

ديكھيں: التمھيد ( 8 / 108 – 109 ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد صحابہ كرام نماز تراويح باجماعت بھى اور اكيلے بھى ادا كرتے رہے، حتى كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ايك امام كے پيچھے جمع كر ديا.

عبد الرحمن بن عبد القارى بيان كرتے ہيں كہ ميں رمضان المبارك كى ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ مسجد نبوى گيا تو لوگ متفرق اور تقسيم تھے، كوئى شخص اكيلا نماز پڑھ رہا تھا، اور كوئى شخص نماز پڑھا رہا تھا اور اس كے پيچھے كچھ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے ميں سمجھتا ہوں كہ اگر انہيں ايك قارى كے پيچھے جمع كر ديا جائے تو زيادہ بہتر ہے، اور پھر انہوں نے اس كا عزم كرتے ہوئے سب لوگوں كو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے جمع كر ديا، پھر ميں ايك اور رات ميں نكلا تو لوگ اپنے قارى كے پيچھے نماز ادا كر رہے تھے تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرمانے لگے: يہ بدعت اچھى ہے، اور جو لوگ اس سے سوئے ہوئے ہيں وہ قيام كرنے والوں سے افضل ہيں ـ يعنى رات كے آخرى حصہ ميں قيام كرنے والے ـ اور لوگ رات كے شروع ميں قيام كرتے تھے.

صحيح بخارى حديث نبمر ( 1906 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے قول" يہ اچھى بدعت ہے" سے بدعت كو جائز قرار دينے والوں كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

رمضان المبارك كا قيام كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے مسنون كيا ہے، اور ا نہيں كئى راتيں باجماعت نماز تراويح پڑھائى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عہد مبارك ميں لوگ باجماعت اور اكيلے بھى قيام كيا كرتے تھے، ليكن ايك جماعت پر مدامت نہيں كى گئى تاكہ ان پر فرض نہ كى دى جائے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو شريعت ميں استقرار پيدا ہو چكا تھا.

اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ايك امام ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے كر ديا جنہوں ان كے حكم سے لوگوں كى جماعت كروائى، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ خلفاء راشدين ميں سے ہيں، جبكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميرى اور ميرے بعد خلفاء راشدين المھديين كى سنت پر مظبوطى سے عمل كرو، اور اسے دانتوں سے پكڑو" يعنى داڑھ سے، كيونكہ اس ميں زيادہ قوت ہے، اور ان كا يہ فعل سنت ہے، ليكن ان كا يہ كہنا كہ: يہ بدعت اچھى ہے، كيونكہ يہ لغوى بدعت ہے، كيونكہ انہوں نے وہ كام كيا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں نہيں كرتے تھے، يعنى اس طرح ايك امام پر جمع ہونا، اور يہ شريعت ميں سے سنت ہے"

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 234 – 235 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21740 ) اور ( 45781 ) كے جواب ضرور ديكھيں.

دوم:

رمضان المبارك ميں نماز ميں يا بغير نماز كے قرآن مجيد كى تلاوت كر كے ختم كرنا بہت اچھا كام ہے، جبريل امين عليہ السلام ہر رمضان المبارك ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے، اور جس سال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے اس سال رمضان ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دوبار انہوں نے قرآن مجيد كا دور كيا.

اس كا بيان سوال نمبر ( 66504 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android