كيا كوئى ايسى دعاء ہے جو رمضان المبارك وغيرہ ميں عورت حالت حيض ميں پڑھے جبكہ اس نے نماز ادا نہ كرنى ہو ميرے خيال ميں اگر وہ يہ دعاء ہر نماز كے وقت ستر بار پڑھے تو اسے حج اور عمرہ كا ثواب حاصل ہوتا ہے، برائے مہربانى آپ مجھے وہ دعاء اور اس كے فوائد بتائيں اور يہ دعاء كس حديث ميں وارد ہے معلومات فراہم كرنے پر آپ كا شكرہ ؟
حائضہ عورت كے ليے دعا جس كا ثواب حج اور عمرہ كے برابر ہے
سوال: 65575
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہمارے علم ميں تو سنت نبويہ ميں كوئى دعاء ايسى نہيں جو سائلہ بہن نے دريافت كى ہے.
اور كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كوئى ايسى بات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب كرے جو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں فرمائى، كيونكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى ميرے ذمہ جان بوجھ كر جھوٹ لگايا تو وہ اپنا ٹھكانہ جہنم بنا لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1291 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 933 ).
اور پھر يہ نہيں ہو سكتا كہ انسان جو حديث بھى سنے يا كسى كتاب ميں پڑھے وہ صحيح ہو بلكہ احاديث كى نقل ميں ان كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملنا ضرورى ہے، اس ليے ہم احاديث ان علماء اور اہل علم سے لينگے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث نقل كرنے ميں معروف ہيں.
امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم كے مقدمہ ميں اور امام ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے آپ كا يہ فرمان نقل كيا ہے:
" آدمى كو جھوٹ كے ليے اتنا ہى كافى ہے كہ وہ ہر سنى سنائى بات كو بيان كر دے "
مقدمہ صحيح مسلم ( 5 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4992 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" آدمى عادتا سچى اور جھوٹ دونوں قسم كى باتيں سنتا ہے اس ليے اگر وہ ہر سنى ہوئى بات سنے تو اس نے ايسا بات بتانے ميں جھوٹ بولا جو نہيں ہو سكتى " انتہى
دوم:
حائضہ عورت كے ليے اللہ تعالى كا ذكر اور جو چاہے دعاء كرنا جائز ہے، اسے اس سے نہيں روكا گيا، اور وہ قرآن مجيد كى تلاوت كر سكتى ہے، جيسا كہ امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مسلك ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حائضہ اور جنبى عورت قرآن كى تلاوت نہ كرے:
اس كى ممانعت ( يعنى حائضہ عورت ) كو تلاوت كرنے ميں مانع كوئى حديث نہيں كيونكہ اس سلسلہ ميں جو حديث بيان كى جاتى ہے وہ باتفاق علماء حديث ضعيف ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں حائضہ عوتيں بھى موجود تھيں اور انہيں حيض آتا تھا اگر ان كے ليے نماز كى طرح قرآن مجيد كى تلاوت كرنى حرام ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے بھى بيان فرماتے اور امہات المومنين كو اس كا علم ہوتا.
اور پھر اگر ايسا ہوتا تو يہ بھى منقول ہوتا، اس ليے جب كسى صحابى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى ممانعت بھى منقول ہوتى، لہذا آپ كو علم ہے كہ نبى عليہ السلام نے اس سے منع نہيں كيا تو آپ كے ليے اسے حرام قرار دينا جائز نہيں، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عورتوں كو كثرت سے حيض بھى آتا تھا اس كے باوجود آپ نے منع نہيں فرمايا تو يہ معلوم ہوا كہ يہ حرام نہيں " انتہى مختصرا
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 26 / 190 ).
ليكن يہ ہے كہ حائضہ عورت قرآن مجيد كو چھو كر نہيں پڑھےگى، يا تو جو اسے حفظ ہے اس ميں سے پڑھے، يا پھر دستانے وغيرہ پہن كر قرآن مجيد پكڑ كر پڑھے جو قرآن اور اس كے درميان حائل ہو يعنى كپڑا اور غلاف سے پكڑ كر.
مزيد آپ سوال نمبر ( 2564 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات