ميں نے ايك عيسائى عورت سے شادى كر ركھى ہے اور اس سے ميرے دو بچے بھى ہيں، ايك رمضان المبارك كے مہينہ ميں ايسا ہوا كہ ميں افطارى كر رہا تھا كہ كھانے كے دوران ميرى بيوى نے شراب نوشى شروع كر دى، اور ميں اسے اس سے نہ روك سكا، كيونكہ اگر ميں روكنے كى كوشش كرتا تو وہ طلاق كا مطالبہ كرتى اور ہو سكتا ہے طلاق كى صورت ميں بچوں كى پرورش كا حق بھى حاصل كر ليتى، اس طرح ميرے ليے بچوں كو دين اسلام كى تعليم دين مشكل ہو جاتا.
ميرا سوال يہ ہے كہ كيا رمضان المبارك ميں جب وہ شراب نوشى كرے اور اس كے خاندان والے شراب نوشى كريں تو كيا ميرے ليے ان كے ساتھ بيٹھنا حرام ہے، حالانكہ ميں شراب نوشى نہيں كرتا ؟
كافرہ بيوى اولاد كے سامنے شراب نوشى كرتى ہے اور طلاق كى صورت ميں اولاد كو ساتھ لے جانے كا خدشہ ہے
سوال: 65683
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جواب :
اگرچہ كتابى عورت ( يعنى يہودى اور عيسائى ) سےشادى كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں بہت سارے خطرات پائے جاتے ہيں، جن ميں سب سے بڑاخطرہ اولاد كے دين كا ہے كيونكہ وہ عورت اپنے خاوند كى اولاد كو دين اسلام سے دورلے جانے كى كوشش كريگى، اور خاص كر جب وہ غير مسلم ملك ميں بستى ہو تو قانون بھىاس كے ساتھ ہے.
جب بچے ماں كو شراب نوشى كرتے ہوئے ديكھيں تو آپاولاد كو كيسے مطمئن كر سكتے ہيں كہ شرام نوشى حرام ہے!!
اكثر علماء كرام كہتے ہيں كہ اگر كوئى شخص كسىكتابى عورت سے شادى كرے تو وہ اسے شراب نوشى سے روكے گا، اور خنزيز كا گوشت كھانےسے بھى منع كرےگا، شافعى اور حنبلى حضرات كے جمہور فقھاء كا مسلك يہى ہے، اوراحناف كى ايك جماعت بھى اسى كى قائل ہے.
احناف كى كتاب: البحر الرائق ” ميں بعضاحناف سے منقول ہے كہ:
” مسلمان خاوند كو حق حاصل ہے وہ اپنى ذمىبيوى كو شراب نوشى سے بالكل اسى طرح روكےگا جس طرح وہ اپنى مسلمان بيوى كو پيازاور لہسن كھانے سے روكتا ہے كيونكہ اسے ناپسند ہو تو وہ مسلمان بيوى كو ايسا كرنےسے روك سكتا ہے، يہى حق ہے جو كسى پر مخفى نہيں ” انتہى
ديكھيں: البحر الرائق ( 3 / 111 ).
اور شافعيہ كى كتاب ” مغنى المحتاج “ميں درج ہے:
” نان و نفقہ اور تقسيم و طلاق كے مسائل ميںمنكوحہ كتابى عورت بھى مسلمان عورت كى طرح ہے، اسے بھىحيض و نفاس اور جنابت سے غسل پر مجبور كياجائيگا، اور خنزير كھانے سے روكا جائيگا، اور اسے اور مسلمان عورت دونوں كو اس كےنجس اعضاء دھونے پر مجبور كيا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: مغنى المحتاج ( 4 / 314 ).
اور حنابلہ كى كتاب ” الانصاف ” ميںدرج ہے:
” ذمى عورت كو نشہ آور اشياء اور نشہ كرنےسے روكا جائيگا، صحيح مسلك يہى ہے كہ جب نشہ آور نہ ہو تو اسے اس سے نہيں روكاجائيگا ( امام احمد رحمہ اللہ نے يہى بيان كيا ہے ) اور امام احمد سے ايك روايتميں ہے كہ: اسے مطلقا روكا جائيگا.
اور الترغيب ميں ہے: خنزير كھانے سے بھى اسى طرحمنع كيا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 352 ).
مالكيہ كہتے ہيں كہ:
” خاوند كو حق نہيں كہ وہ كتابى بيوى كوشراب نوشى كرنے اور خنزير كھانے سے روكے “
ديكھيں: التاج و الاكليل ( 5 / 134 ).
اگر آپ اپنى بيوى كو بچوں كے سامنے شراب نوشىكرنے سے نہيں روك سكتے جيسا كہ آپ نے بيانكيا ہے كہ ہو سكتا ہے وہ طلاق كا مطالبہ كر دے اور اولاد كو لے كر چلتىبنے، تو اس صورت ميں آپ كو اپنى بيوى پر واضح كرنا چاہيے كہ آپس ميں حسن معاشرتاور حسن سلوك كا تقاضہ اور خاوند بيوى كے مابين بہتر اور اچھے تعلقات يہى ہو سكتےہيں كہ تم بچوں كے سامنے شراب نوشى مت كيا كرو.
اور اگر وہ ايسا كرنے سے انكار كرتى ہے تو پھر آپكو چاہيے كہ جب وہ اس برائى كے مرتكب ہو رہے ہوں تو آپ ان كے ساتھ مت بيٹھيں، بلكہوہاں سے اٹھ جائيں، اس برائى سے انكار كا ايك طريقہ يہ بھى ہے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يقينا تم پركتاب قرآن مجيد ميں يہ نازل كيا گيا ہے كہ جب تم اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفرہوتا سنو اور ان سے استھزاء و مذاق ہوتا ہوا سنو تو ان كے ساتھ اس وقت تك مت بيٹھوجب تك كہ وہ كسى اور بات ميں مشغول نہ ہو جائيں، اگر تم بيٹھو گے تو پھر تم بھىانہيں جيسو ہوگے، يقينا اللہ تعالى منافقوں اور كافروں كو اكٹھے جہنم ميں جمع كرنےوالا ہے النساء ( 140 ).
جو شخص ہاتھ سے برائى كو نہ روك سكتا ہو اس كےليے قاعدہ اور اصول يہى ہے كہ اگر استطاعت ركھتا ہو تو وہ اس جگہ سے اٹھ جائےوگرنہ وہ بھى گناہ ميں مجرم كے ساتھ برابر كا شريك ہوگا.
آپ كو صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے، اور اس بيوىكو دين اسلام كى دعوت كى ہر ممكن كوشش كريں، اور اپنے اخلاق و اعمال كے ساتھ اس كےہاں دين اسلام كى محبت پيدا كريں.
ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ اس كى ہدايت كے ليےزيادہ سے زيادہ دعا كريں، كيونكہ دعا بہت عظيم ہتھيار ہے، ہو سكتا ہے اللہ سبحانہو تعالى اسے اور اس كے خاندان والوں كو آپ كے ہاتھ پر ہدايت نصيب فرما دے.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب