ميرے والد صاحب بعض اوقات كام كى زيادتى كى بنا پر تراويح اور نماز فجر كے ليے نہيں جاتے، كيا ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرے والد صاحب كى عادت ہے كہ رمضان ميں وہ تراويح كى نماز نہيں چھوڑتے الا يہ كہ مريض ہوں، اور الحمد للہ وہ دين پر عمل پيرا ہيں، ليكن اب بعض اوقات كام كى زيادتى كى بنا پر نماز كے ليے نہيں جاتے ؟
ڈيوٹى كى بنا پر نماز باجماعت ترك كرنا
سوال: 65783
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز پنجگانہ سب اوقات ميں باجماعت ادا كرنى واجب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جب آپ ان ميں ہوں تو انہيں نماز پڑھائيں، ان ميں سے چاہيے كہ ايك گروہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے، اور وہ اپنے ساتھ اسلحہ ركھيں، اور جب وہ سجدہ كر چكيں تو يہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں النساء ( 102 ).
اس آيت ميں جب اللہ تعالى نے حالت جنگ ميں نماز باجماعت واجب كى ہے تو پھر امن و سلامتى كى حالت ميں كيسے نہيں ؟
امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں نے ارادہ كيا كہ لكڑياں اكٹھى كرنے كا حكم دوں پھر نماز كے ليے اقامت كا حكم دوں اور نماز كى اقامت كہى جائے اور ايك شخص كو نماز كى امامت كے ليے كہوں، اور ميں ان لوگوں كے پيچھے جاؤں جو نماز ميں حاضر نہيں ہوتے اور انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كردوں ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 608 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1040 ).
اور صحيح مسلم ميں ہے كہ:
ايك نابينا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا كہنا لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے والا كوئى نہيں، اور اس نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت مانگى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے رخصت دے دى، جب وہ جانے لگا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور پوچھا:
كيا تم نماز كى اذان سنتے ہو؟ تو اس نے جواب ميں كہا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر آيا كرو”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1044 ).
اس ليے مسلمان شخص كو ہميشہ نماز بنچگانہ باجماعت ادا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور دنياوى شغل و معاملات اسے نماز باجماعت ادا كرنے سے مشغول كرتے ہوئے پيچھے نہ ركھيں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو تمہيں تمہارے مال اور اولاد اللہ تعالى كے ذكر سے غافل نہ كرديں، اور جو كوئى بھى ايسا كرے گا وہى خسارہ پانے والوں ميں سے ہے المنافقون ( 9 ).
اس ليے آپ اپنے والد كو نصيحت كريں، اور ان صحيح دلائل كو حكمت كے سامنے ان كے سامنے ركھيں اور وعظ كريں.
نماز پنجگانہ باجماعت ادا كرنے ميں حكم يہى ہے، ليكن تراويح كا معاملہ آسان ہے، كيونكہ مسلمان شخص كے ليے نماز تراويح گھر ميں ادا كرنا جائز ہيں، اگرچہ مسجد ميں باجماعت تراويح ادا كرنا افضل ہيں.
مسلمان اپنے آپ كو دنياوى كاموں ميں اتنا نہ كھپا دے كہ وہ اس كى عبادت اور نماز پر ہى غالب آجائيں اور اسے اس سے غافل كرديں، اللہ سبحانہ وتعالى نے مومنوں كا وصف بيان كيا ہے كہ تجارت اور خريدوفروخت انہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز كى ادائيگى سے غافل نہيں كرتى.
فرمان بارى تعالى ہے:
ان گھروں ميں جنہيں بلند كرنے اور جن ميں اپنے نام كى ياد كا اللہ تعالى نے حكم ديا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالى كى تسبيح بيان كرتے ہيں، ايسے لوگ جنہيں تجارت اور خريدوفروخت اللہ تعالى كے ذكر سے اور نماز كے قائم كرنے سے اور زكاۃ ادا كرنے سے غافل نہيں كرتى، وہ اس دن سے ڈرتے ہيں جس دن بہت سے دل اور بہت سى آنكھيں الٹ پلٹ ہو جائيں گى، اس ارادے سے كہ اللہ تعالى انہيں ان كے اعمال كا بہترين بدلہ دے، بلكہ اپنے فضل سے كچھ زيادتى عطا فرمائے، اللہ تعالى جسے چاہے بے شمار روزياں ديتا ہے النور ( 36 – 38 ).
ان آيات كے اختتام ميں اللہ تعالى نے فرمايا:
اور اللہ تعالى جسے چاہے بے شمار روزياں ديتا ہے.
جو كہ ايك ايسے امر كى طرف اشارہ ہے جسے اپنے رب كى اطاعت و فرمانبردارى سے غافل ہو كر اپنا وہ وقت بھى تجارت اور كام كاج ميں صرف كرنے والے ليے سمجھنا بے حد ضرورى ہے كہ رزق اللہ تعالى كے ہاتھ ميں ہے، وہ جسے چاہے بغير حساب رزق عطا فرماتا ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اسے بيان كرتے ہوئے فرمايا:
” اے لوگو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور اس سےڈر جاؤ اور كمانے ميں اچھائى اور بہترى پيدا كرو، كيونكہ كوئى بھى جان اس وقت تك مرے گى نہيں جب تك كہ وہ اپنا رزق پورا نہيں كرليتى، اور اگر وہ رزق اس سے كچھ ليٹ ہو رہا ہے، تو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور حاصل كرنے ميں اچھائى اور بہترى پيدا كرو، جو حلال ہے اسے لے لو، اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو”
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2144 ) نے اسے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1698 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
لہذا حصول رزق كے ليے اسباب صرف كرنے ميں كوئى مانع نہيں، ليكن مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ كام كاج ميں مبالغہ نہ كرے كہ اس كى عبادت كا وقت بھى اسى كام كاج ميں صرف ہو جائے، اور اس كى صحت اور بچوں كى تربيت كا وقت بھى كام كاج ميں صرف ہوتا رہے، اسے صحيح اور قرب اختيار كرنا چاہيے.
ہميں اميد ہے كہ ہم نے جو كچھ كہا ہے اس پر وقف كرينگے اور حقيقتا اس پر غور و فكر كرينگے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ انہيں اچھے اور بہترين اقوال و اعمال اور اخلاق اپنانے كى توفيق نوازے، اور انہيں بہترين پاكيزہ اور بابركت رزق عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب