امام كے پيچھے صفيں كيسے بنائى جائيں، كيا اس كے دائيں طرف سے يا كہ درميان سے ؟
امام كا صف كے آگے اور وسط ميں كھڑا ہونا سنت ہے
سوال: 66017
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سنت يہ ہے كہ امام صف آگے اور وسط ميں كھڑا ہو، اور امام كے پيچھے مباشرتا صف شروع كى جائے، اور پھر دائيں بائيں صف كو پورا كيا جائے، ليكن اگر دائيں طرف كچھ صف زيادہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" امام كو وسط ميں ركھو، اور خالى جگہ پر كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 681 ).
فيض القدير ميں مناوى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" يعنى: امام كو صف كے درميان ميں ركھو تا كہ اس كے دائيں بائيں والے سب قرب اور سماعت كا حصہ حاصل كر سكيں" انتہى.
ليكن يہ حديث ضعيف ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ابو داود ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
اور كچھ دوسرى صحيح احاديث بھى آئى ہيں جن كا ظاہر اس ضعيف حديث كى دلالت پر دال ہے كہ امام صف كے آگے درميان ميں كھڑا ہو گا.
امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے عتبان بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے گھر ميں آئے اور فرمانے لگے:
" تم اپنے گھر ميں كہاں پسند كرتے ہو كہ ميں وہاں نماز پڑھوں ؟
وہ كہتے ہيں: ميں نے ايك جگہ كى طرف اشارہ كيا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تكبير كہى اور ہم نے ان كے پيچھے صف بنائى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو ركعت ادا كيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 424 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 33 ).
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى نانى مليكہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ كو كھانے كى دعوت دى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھانا كھايا اور فرمانے لگے:
" اٹھو ميں تمہيں نماز پڑھاؤں "
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اٹھے ميں اور ايك يتيم بچے نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے اور ہمارے پيچھے بڑھيا نے صف بنائى، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں دو ركعت پڑھائيں اور پھر چلے گئے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 380 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 33 ).
امام مسلم رحمہ اللہ تعالى عنہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ نماز ادا كى تو ميں ان كے بائيں جانب كھڑا ہو گيا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے مجھے پكڑ كر اپنے دائيں طرف كھڑا كر ديا، پھر جبار بن صخر رضى اللہ تعالى عنہ آئے اور وضوء كر كے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بائيں طرف كھڑے ہو گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہم دونوں كے ہاتھ پكڑ كر پيچھے كر كے كھڑا كر ديا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3014 ).
حديث كے الفاظ: " ہم نے ان كے پيچھے صف بنائى "
اور " ميں نے اور ايك يتيم بچے نے ان كے پيچھے صف بنائى "
اور " حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں اپنے پيچھے كھڑا كر ديا"
كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ كے بالكل پيچھے تھے، يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صف كے آگے اور وسط ميں تھے.
شوكانى رحمہ اللہ تعالى عنہ نے " السيل الجرار " ميں كہا ہے:
" دو اور دو سے زيادہ امام كى سمت ميں اس كے پيچھے كھڑے ہونگے.
كہ وہ دونوں اس كى سمت ميں ہونے كا معنى يہ ہے كہ وہ امام كے پيچھے كھڑے ہوں، اور اگر وہ دونوں امام كى سمت ميں نہيں بلكہ ايك سائڈ ميں كھڑے ہوں تو وہ اس كے پيچھے نہيں كھڑے ہوئے " انتہى.
ديكھيں: السيل الجرار ( 1 / 261 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:
" اور مستحب يہ ہے كہ امام صف كے آگے وسط ميں كھڑا ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" امام كو وسط ميں ركھو، اور خالى جگہ پر كرو "
اسے ابو داود نے روايت كيا ہے.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 2 / 27 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:
" ہمارے اصحاب وغيرہ پہلى صف كے استحباب اور اس كے ابھارنے متفق ہيں، اس سلسلے ميں بہت سى صحيح احاديث وارد ہيں، اور امام كے دائيں طرف كھڑے ہونے كے استحباب اور صفوں ميں خالى جگہ پر كرنے، اور پہلے اگلى صفوں كو پورا كرنے كے بعد پھر دوسرى صف بنانے پر متفق ہيں.
پہلى صف مكمل ہونے سے پہلے دوسرى صف بنانى مشروع نہيں، اور صف كو برابر كرنے كے استحباب كى بنا پر صف سے نہ تو كوئى شخص اپنا سينہ آگے نكالے، اور نہ ہى وہ دوسروں سے پيچھے كھڑا ہو، اور امام كو صف كے درميان كھڑا كرنا اور اس كے پيچھے دونوں طرف صف برابر كرنا مستحب ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 192 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:
" صف كے آداب ميں شامل ہے كہ خالى جگہيں پر كى جائيں، اور پہلى صف مكمل ہونے سے قبل دوسرى صف شروع نہ كى جائے، اور اگر صف ميں وسعت ہو تو صف ميں داخل ہونے والے كے ليے جگہ بنائى جائے، اور امام صف كے وسط ميں اور مقتدى اس كے پيچھے كھڑے ہوں " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 27 / 37 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:
صفوف كى برابرى ميں ہے كہ: صف كا داياں حصہ بائيں حصے سے افضل ہے، ليكن يہ مطلقا نہيں؛ جيسا كہ پہلى صف ميں ہے، اس ليے كہ اگر يہ مطلقا ہو جيسا كہ پہلى صف ميں ہے؛ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے: " پہلے صف كا داياں حصہ مكمل كرو " جيسا كہ فرمايا: " پہلے پہلى صف مكمل كرو، اور پھر اس كے بعد والى "
اور جب يہ مشروع نہيں كہ دائيں طرف مكمل ہونے سے قبل بائيں طرف نہ كھڑا ہوا جائے، تو ہم شريعت كے اصول كو ديكھتے ہيں كہ بائيں جانب كے متعلق كيا ہے ؟
ہم ديكھتے ہيں كہ اگر داياں اور باياں حصہ برابر ہو يا پھر تقريبا برابر ہو تو اس حالت ميں صف كا باياں حصہ افضل ہو گا، جيسے دائيں جانب پانچ افراد ہوں اور بائيں جانب بھى پانچ اور گيارواں شخص آئے تو ہم اسے كہينگے كہ دائيں جانب كھڑے ہو كيونكہ برابر ہونے كى صورت ميں دائيں طرف افضل ہے، يا تقريبا برابر ہونے كى صورت ميں بھى، كہ صف كے دائيں اور بائيں طرف ميں كوئى فرق واضح نہ ہوتا ہو.
ليكن دورى كى صورت ميں بلا شك بائيں طرف امام كے قريب ہونا دائيں طرف دور ہونے سے افضل ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ: شروع ميں يہ مشروع تھا كہ تين افراد ہونے كى شكل ميں امام ان كے درميان كھڑا ہو، يعنى دونوں افراد كے مابين، جو كہ اس بات كى دليل ہے كہ دائيں طرف مطلقا افضل نہيں؛ كيونكہ اگر يہ مطلقا افضل ہوتى تو پھر دونوں افراد امام كے دائيں طرف كھڑا ہونا افضل تھا، ليكن مشروع يہ تھا كہ ايك شخص امام كے دائيں اور ايك بائيں كھڑا ہو تا كہ امام درميان ميں كھڑا ہو، اور دونوں طرفوں ميں كوئى ظلم نہ ہو" انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 10 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا امام كے پيچھے صف دائيں طرف سے شروع كي جائيگى يا كہ امام كے پيچھے سے ؟
اور كيا دائيں بائيں صف ميں توازن برقرار ركھنا مشروع ہے، كہ يہ كہا جائے صف برابر كرو، جيسا كہ بہت سے آئمہ كرام كرتے ہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" صف امام كے بالكل پيچھے وسط سے شروع كى جائيگى، اور ہر صف كا داياں حصہ افضل ہے، واجب يہ ہے كہ پہلى صف مكمل ہونے كے بعد ہى دوسرى صف بنانى شروع كى جائے، اور دائيں طرف لوگ زيادہ ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اسے برابر كرانے كى كوئى ضرورت نہيں، بلكہ اس كا حكم دينا خلاف سنت ہے.
ليكن دوسرى صف اس وقت نہيں بنانى چاہيے جب تك پہلى صف مكمل نہ ہو جائے، اور نہ ہى تيسرى صف حتى كہ دوسرى صف مكمل ہو جائے اور باقى صفيں بھى اسى طرح شروع كى جائيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا حكم ثابت ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 12 / 205 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب