ميں نے ايك حديث پڑھى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” بلا شبہ اللہ تعالى نے حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت سے روزہ معاف كر ديا ہے ”
كيا اس حديث كا معنى يہ ہے كہ ان دونوں پر روزہ فرض نہيں، چاہے مشقت ہو يا مشقت نہ ہو ؟
حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كے ليے صرف اس صورت ميں روزہ چھوڑنا حلال ہے جب اسے يا اس كے بچے كو ضرر كا خدشہ ہو
سوال: 66438
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ حديث ابو داود، ترمذى، نسائى كى روايت كردہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ نے فرمايا:
” بلا شبہ اللہ سبحانہ وتعالى نے مسافر سے آدھى نماز، اور روزہ معاف كردى ہے، اور حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت سے ”
ابو داود حديث نمبر ( 2408 ) ترمذى حديث نمبر ( 715 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1667 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہ حديث ہرمطلقا ہر حاملہ عورت كے متعلق ہے، ليكن علماء كرام نے اس علت جس كى بنا پر حكم مشروع ہوا ہے پر عمل كرتے ہوئے اسے مشقت كے ساتھ مقيد كيا ہے، اور وہ حكم حاملہ عورت كا روزہ نہ ركھنا ہے.
اور يہ روزوں كى آيت ميں مرض كے مطلقا آنے كے مشابہ ہے:
اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).
علماء كرام نے اس مقيد ( تقييد ) كى دليل ميں نصوص بھى بيان كى ہيں، بلكہ علماء كرام سے اس پر اتفاق بھى نقل كيا گيا ہے جس كا بيان آگے آ رہا ہے.
اول:
ہم سلف كے بارہ ميں كہتے ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور ان لوگوں پر جو اس كى طاقت ركھتے ہيں ايك مسكين كا فديہ ہے .
ابو داود رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى سے اس آيت كے بارہ ميں نقل كيا ہے كہ:
” بوڑھے مرد اور عورت كے ليے جب كہ وہ روزہ ركھنے كى طاقت ركھتے ہوں انہيں روزہ نہ ركھنے كى اجازت تھى اور اس كے بدلے وہ ايك مسكين كو ہر دن كھانا كھلائيں، اور جب حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كو خوف ہو تو وہ بھى ”
ابو داود حديث نمبر ( 2318 ) امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں اس كى سند حسن ہے.
تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كو خوف كے ساتھ مقيد كيا ہے، اور اس ميں اطلاق ركھا چاہے وہ اپنى جان كا خوف ہو يا اپنے بچے كا.
اور كتاب الام ميں شافعى رحمہ اللہ تعالى سے مروى ہے وہ كہتے ہيں:
” ہميں مالك نے نافع سے خبر دى كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے سوال كيا گيا كہ اگر حاملہ عورت كو اپنے بچے كے متعلق خدشہ ہو تو انہوں نے فرمايا:
” وہ روزہ نہيں ركھے گى اور اس كے بدلے ہر دن ايك مسكين كو ايك مد گندم غلہ دے گى ”
اور امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
گنتى كے چند دن كے متعلق باب….
حسن اور ابراہيم نے دودھ پلانے والى يا حاملہ عورت جب انہيں اپنے يا بچے كے بارہ ميں خدشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ كر اس كى قضاء كرينگى. انتہى
اس حكم ميں ابن عباس، ابن عمر، حسن، نخعى رحمہم اللہ سے وارد تقييد يہ ہے.
دوم:
آئمہ كرام كے مذاہب:
آئمہ كرام اس تقييد پر بھى متفق ہيں.
اول:
حنفى مذہب:
جصاص رحمہ اللہ نے ” احكام القرآن ” ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
” بلا شبہ اللہ تعالى نے مسافر سے آدھى نماز اور روزہ اور حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت سے ”
ذكركرنے كے بعد كہتے ہيں:
يہ معلوم ہے كہ ان دونوں ـ يعنى حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت ـ كى رخصت ان كے يا ان كے بچوں كے ضرر اور نقصان پر موقوف ہے.
ديكھيں: احكام القرآن للجصاص ( 1 / 244 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت اس سے خالى نہيں كہ روزہ سے انہيں يا ان كے بچے كو ضرر ہو گا، تو جسے بھى ہو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا بہتر اور روزہ ركھنا ممنوع ہے، اور اگر انہيں روزے سے ضرر نہ ہو اور نہ ہى ان كے بچوں كو تو اسے روزہ ركھنا ہو گا، اور روزہ چھوڑنا جائز نہيں.
ديكھيں: احكام القرآن ( 1 / 252 ).
اور البحر الرائق ميں ہے:
( حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت جب اپنے بچے يا اپنے آپ پر ڈريں تو ان كے ليے )
البحر الرائق ( 2 / 308 )
يعنى: مشقت اورحرج ختم كرنے كے ليے ان دونوں كو روزہ نہ ركھنا جائز ہے….. ظن غالب ميں خوف سے مقيد ہے….. كيونكہ اگر اسے خوف نہ ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنے كى رخصت نہيں ہے.
دوم:
مالكى مذہب:
شرح مختصر خليل ميں ہے:
جب حاملہ عورت اپنے بچے كے ہلاك ہونے يا اسے شديد اذيت كا خطرہ محسوس كرے تو اس پر روزہ چھوڑنا واجب ہے، اور اگر كسى علت يا بيمارى كے پيدا ہونے كا خدشہ ہو تو معتبر قول ميں اس كے ليے روزہ نہ ركھا جائز ہے.
اور يہ بھى كہا گيا ہے: جب كوئى علت پيدا ہونے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا واجب ہے، اور اسى طرح دودھ پلانے والى عورت اگر اپنے بچے كى ہلاكت يا شديد اذيت كا خدشہ محسوس كرے تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا واجب ہے، اور اگر وہ بيمارى يا علت كا خدشہ محسوس كرے تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا جائز ہے، يہ اس شرط پر ہے كہ بچہ اس كے علاوہ كسى اور كو قبول نہ كرے… وگرنہ اس پر روزہ ركھنا واجب ہے.
سوم:
شافعى مذہب:
امام شافى رحمہ اللہ تعالى كتاب الام ميں كہتے ہيں:
جب حاملہ عورت كو اپنے بچے كا ڈر ہو تو وہ روزہ نہ ركھے، اور اسى طرح دودھ پلانے والى كو بھى جب دودھ پلانے سے واضح خطرہ ہو، ليكن جس سے اس كا احتمال ہو تو وہ روزہ نہ چھوڑے، اور روزے سے ہو سكتا ہے اس كے دودھ ميں كمى ہو، ليكن نقصان كا احتمال ہے، اور جب زيادہ قباحت ہو تو دونوں روزہ نہ ركھيں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى ” المجموع ” ميں كہتے ہيں:
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كو روزہ ركھنے سے اپنے آپ پر ڈر ہو تو وہ روزہ نہيں ركھيں گى، اور مريض كى طرح بعد ميں اس كى قضاء كريں، اور ان پر فديہ نہيں ہے.
اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور اگر انہيں اپنى جان اور بچے كا ڈر ہو تو اسى طرح بغير اختلاف كے روزہ نہيں ركھيں گى، امام دارمى اور سرخسى وغيرہ رحمہ اللہ نے صراحت كے ساتھ بيان كيا ہے، اور اگر انہيں اپنى جان كى بجائے بچے كى جان كا خدشہ ہو تو بغير كسى اختلاف كے روزہ نہ ركھيں .. الخ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 6 / 274 ).
چہارم:
مذہب حنبلى:
ابن مفلح رحمہ اللہ ” الفروع ” ميں كہتے ہيں:
حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كو اگر اپنى يا بچے كى جان كا ڈر ہو تو اس كے ليے روزہ ركھنا مكروہ ہے ….
اور ابن عقيل رحمہ اللہ تعالى نے ذكر كيا ہے كہ: اگر حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كو حمل اور رضاعت ميں ضرر كا انديشہ ہو تو اس كے ليے روزہ ركھنا حلال نہيں، بلكہ وہ فديہ دينگى، اور اگر ضرر كا انديشہ نہ ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا حلال نہيں.
ديكھيں: الفروع ( 3 / 35 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ ” الفتاوى ” ميں كہتے ہيں:
اگر حاملہ عورت كے بچے كو ضرر كا خدشہ ہو تو وہ روزہ نہيں ركھے گى… الخ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 218 ).
پنجم:
ظاہرى مذہب:
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى ” المحلى ” ميں رقمطراز ہيں:
” حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت، اور بوڑھا آدمى، يہ سب روزہ ركھنے كے خطاب ميں شامل ہيں، لہذا ان پر رمضان المبارك كے روزے ركھنا فرض ہيں، اگر دودھ پلانے والى كے بچے كو دودھ كى كمى كى بنا پر ضرر كا انديشہ ہو اور اسے دودھ پلانے والى كوئى اور نہ ہو، يا كسى دوسرى عورت كا دودھ قبول نہ كرے يا حاملہ عورت كو بچے كے ضرر كا انديشہ ہو، يا بوڑھا آدمى بڑھاپے كى بنا پر روزہ ركھنے سے عاجز ہو، تو يہ روزہ نہيں ركھيں گے… الخ انتہى
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 411 ).
الموسوعہ الفقھيۃ ميں ہے:
” فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كے ليے اس شرط پر رمضان المبارك كا روزہ نہ ركھنا جائز ہے كہ اگر وہ اپنى يا بچے كى بيمارى كا خدشہ محسوس كريں، يا بيمارى ميں زيادتى كا انديشہ ہو، يا بچے كو ضرر اور اس كى ہلاكت كا انديشہ ہو، كيونكہ حاملہ عورت كے پيٹ ميں بچہ اس كے عضو كى مانند ہے، تو اس پر نرمى كرنا ايسے ہى ہے جيسے اس كے كسى عضور پر نرمى كرنا ”
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 55 ).
امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى ” نيل الاوطار” ميں حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت سے روزہ كى رخصت والى حديث پر تعليل كرتے ہوئےكہتے ہيں:
” يہ حديث حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كے ليے روزہ نہ ركھنے كے جواز پر دلالت كرتى ہے، اور فقھاء كرام كا مسلك ہے كہ جب دودھ پلانے والى اور حاملہ عورت كو اپنے بچے كے ضرر كا خدشہ ہو تو وہ حتمى طور پر روزہ نہيں ركھے گى” انتہى
ديكھيں: نيل الاوطار ( 4 / 273 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
” اور حاملہ عورت پر حالت حمل ميں روزہ ركھنا فرض ہے، ليكن اگر اسے روزہ ركھنے كى بنا پر اپنى يا بچے كى جان كو ضرر پہنچنے كا انديشہ ہو تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنے كى رخصت ہے، اور يہ روزے وہ وضع حمل اور نفاس سے پاك ہونے كے بعد قضاء كر كے ركھے گى” اھـ
ديكھيں فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 226 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (50005 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت پر جب روزہ مشقت نہ ہوتا ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا حلال نہ ہونے كے بارہ ميں علماء كرام كى يہ چند ايك نصوص تھيں جو مندرجہ بالا سطور ميں بيان كى گئى ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات