مؤذن افطارى كب كرے گا، اذان سے قبل يا كہ بعد ميں ؟
كيا مؤذن پہلے افطارى كرے يا كہ اذان كہے ؟
سوال: 66605
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
روزے دار كى افطارى ميں اصل يہ ہے كہ غروب شمس كے بعد اور رات آ جانے كے وقت افطارى ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم كھاؤ پيئو حتى كہ رات كے سياہ دھاگے سے فجر كا سفيد دھاگہ واضح ہو جائے، پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
طبرى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ تعالى: " پھر رات تك روزہ پورا كرو "
اللہ سبحانہ وتعالى نے روزے كى حد بيان كى ہے كہ روزے كا آخرى وقت رات كا آنا ہے، جس طرح كہ افطارى اور كھانے پينے اورجماع اور روزے كى ابتدا كى حد دن كا شروع اور رات كا آخرى حصہ ہے.
چنانچہ يہ اس بات كى دليل ہے كہ رات كو روزہ نہيں، جس طرح روزے كے دنوں ميں دن كو افطار نہيں ہے "انتہى
ديكھيں: تفسير الطبرى ( 3 / 532 ).
اور روزے دار كے ليے روزہ جلد افطار كرنا سنت ہے.
سھل بن سعد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسولكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جب تك لوگ افطارى ميں جلدى كرتے رہينگے ان ميں خير رہے گى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1856 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1098)
ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سنت يہ ہے كہ افطارى جلدى كى جائے، اورسحرى ميں تاخير، جلدى يہ ہے كہ سورج غروب ہونے كا يقين ہوجانے كے فورا بعد افطارى كر لى جائے اور كسى ايك ليے جائز نہيں كہ اسے شك ہو آيا سورج غروب ہوا ہے يا نہيں اور وہ افطارى كر لے، كيونكہ فرض جب يقين كے ساتھ لازم آتا ہے تو وہ اس سے نكلا بھى يقين كے ساتھ ہى جائيگا " انتہى
ديكھيں: التمھيد ( 21 / 97 – 98 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
" اس ميں غروب شمس كا يقين ہو جانے پر افطارى جلد كرنے پر ابھارا گيا ہے.
اور اس كا معنى يہ ہوا كہ امت كے معاملات منظم رہينگے تو ان ميں خير ہے، جب تك وہ اس سنت پر عمل كرتے ہوئے كاربند رہينگے " انتہى
ديكھيں: الشرح المسلم للنووى ( 7 / 208 ).
اور رہا مؤذن كا مسئلہ تو اگر كوئى شخص اس كى اذان كا انتظار كر رہا ہو تا كہ وہ افطارى كرے، تو پھر اسے اذان دينے ميں جلدى كرنى چاہيے، حتى كہ ان كى افطارى ميں تاخير كا باعث نہ بنے، اور اس ميں سنت كى مخالفت بھى ہے "
ليكن اگر وہ كوئى قليل سے چيز كے ساتھ مثلا پانى كا ايك گھونٹ پى كر افطارى كر لے جو تاخير كا باعث نہ بنے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور اگر كوئى بھى مؤذن كى اذان كا انتظار نہ كرتا ہو، مثلا كوئى صرف اپنے ليے اذان كہے ( جيسا كہ كوئى شخص صحراء ميں اكيلا ہو ) يا پھر قريبى حاضر لوگوں كے ليے اذان كہے:
( مثلا مسافروں كى جماعت ) تو اذان سے قبل افطارى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس كے ساتھى اس كے ساتھ ہى افطارى كرينگے، اگرچہ وہ اذان نہ بھى كہے، اور وہ اس كى اذان كا انتظار نہ كر رہے ہوں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب