سوال: جس اسلامی مرکز میں میں نماز ادا کرتا ہوں وہ حنفی مذہب پر ہیں، کہ وہ وتر تین رکعات میں ادا کرتے ہیں اور دوسری رکعت کے بعد تشہد بیٹھتے ہیں لیکن سلام نہیں پھیرتے، پھر تیسری رکعت کیلیے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر سورہ فاتحہ کے ساتھ ایک اور سورت ملاتے ہیں، پھر وہ تکبیر کہہ کر رکوع نہیں کرتے بلکہ دل میں دعا پڑھتے ہیں پھر ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں جاتے ہیں، تو کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اور اگر یہ طریقہ درست نہیں ہے تو ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لے جو تین رکعت وتر دو تشہد اور ایک سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں اور قنوت رکوع سے پہلے کرتے ہیں؟
سوال: 66613
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
امام اور مقتدی حضرات کی جانب سے تین وتروں کو دو تشہد اور ایک ہی سلام سے ادا کرنا ، نیز رکوع سے پہلے قنوت کرنا حنفی اور جمہور علمائے کرام کے مابین مشہور اختلافی مسائل میں سے ہے، چنانچہ وتروں کی نماز کو اس انداز سے ادا کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے؛ کیونکہ تین وتروں کی ادائیگی کیلیے دو شرعی طریقے مشہور ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1- ایک ہی تشہد اور ایک ہی سلام کے ساتھ تینوں وتر اکٹھے ادا کیے جائیں۔
2- دو رکعات ادا کر کے سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک وتر الگ سے ادا کیا جائے۔
ان دونوں طریقوں کے بارے میں آپ کو مکمل تفصیل مع دلائل سوال نمبر: (46544) کے جواب میں ملیں گی، اس کا مطالعہ کریں۔
تین رکعات کو دو تشہد اور سلام کے ساتھ وتر ادا کرنا شرعی طور پر منع ہے، اور اس کا کم از کم درجہ کراہت تو بنتا ہی ہے، جیسے کہ اس بارے میں علمائے کرام کے فتاوی جات کا تذکرہ پہلے سوال نمبر: (72246) اور (26844) میں گزر چکا ہے ان کا مطالعہ بھی کریں۔
رکوع سے پہلے قنوت کرنے کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں ، نیز رکوع کے بعد قنوت کرنے والوں کے پاس بھی دلیل ہے، لہذا یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں سختی کی جائے ، نیز ہر دو موقف میں سے کسی ایک پر عمل پیرا شخص کی مخالفت کرنا بھی درست نہیں ہے، چہ جائیکہ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیں۔
وتروں میں قنوت کے بارے میں پہلے سوال نمبر: (14093) میں تفصیل گزر چکی ہے، اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔
دوم:
آپ کی ذکر کردہ صورت حال کے باوجود ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ان کا یہ عمل ایک امام اور مجتہد کی تقلید کی وجہ سے ہے، اور محض تقلید کی وجہ سے کسی کے پیچھے نماز ترک کرنے کی اجازت دینا ممکن نہیں ، اور نہ ہی ان سے علیحدگی اختیار کرنا مناسب ہے؛ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آپ غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں اور آپ [اختلاف وغیرہ ]جو بھی کام کرینگے وہ اسلام ہی سمجھا جائے گا[اور یہ اسلام پر دھبہ ہوگا]۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر امام کوئی ایسا عمل ترک کر دے جسے مقتدی واجب سمجھتا ہو، مثال کے طور پر: امام [سورت کے شروع میں یا بلند آواز سے ]بسم اللہ نہ پڑھے لیکن مقتدی اسے واجب سمجھتا ہو، یا امام مردانہ عضو پر ہاتھ لگنے سے وضو کرنے کا قائل نہ ہو ، لیکن مقتدی اس سے وضو واجب ہونے کا قائل ہو، یا امام مردار کے رنگے ہوئے چمڑے میں نماز پڑھے جبکہ مقتدی مردار کے چمڑے کی دباغت کے باوجود طہارت کا قائل نہ ہو، یا امام سینگی لگوا کر وضو کرنے کا قائل نہ ہو جبکہ مقتدی اسے ضروری سمجھتا ہو، تو اس صورت حال میں قطعی اور صحیح بات یہ ہے کہ مقتدی کی نماز اس امام کے پیچھے درست ہے اگرچہ امام کا موقف غلط ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ([ظالم حکمران] تمھیں نمازیں پڑھائیں گے ، اگر وہ صحیح انداز میں نماز پڑھائیں تو تمہاری بھی ہو جائے گی اور ان کی بھی ہو جائے گی، لیکن اگر وہ غلطی کریں تو تمہاری ہو جائے گی ان کی نہیں ہوگی)
اسی طرح اگر مقتدی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھے جو فجر یا وتر کی نماز میں دعائے قنوت کرے تو مقتدی کو بھی اس کے ساتھ ہی دعائے قنوت کرنی چاہیے چاہے رکوع سے قبل کرے یا بعد میں، اور اگر امام دعائے قنوت نہ کرے تو مقتدی بھی نہ کرے، اور اگر کسی چیز کے بارے میں امام اور مقتدی کے درمیان مستحب ہونے پر اختلاف ہو تو اس چیز کو اتفاق و اتحاد کی خاطر چھوڑ دینا احسن ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ:
وتروں کے بارے میں علمائے کرام کے تین اقوال ہیں:
1- وتر مغرب کی نماز کی طرح مسلسل تین رکعتوں کی صورت میں ہی ادا کیے جائیں گے، یہ اہل عراق میں سے کچھ کا موقف ہے۔
2- وتر صرف ایک رکعت ہی ہوتی ہے اور یہ پہلے والی رکعات سے الگ ہوتی ہے، یہ اہل حجاز میں سے کچھ کا موقف ہے۔
3- دونوں طرح ہی ٹھیک ہے، یہ شافعی امام احمد اور دیگر کا موقف ہے، اور یہی صحیح ہے، اگرچہ ان کے ہاں بھی وتروں کی ایک رکعت کو گزشتہ رکعات سے الگ پڑھنا ہی افضل اور بہتر ہے۔
چنانچہ اس صورت میں اگر امام وتر کی ایک رکعت الگ سے پڑھنے کا موقف رکھتا ہو، لیکن مقتدیوں کا موقف یہ ہو کہ امام انہیں مغرب کی نماز کی طرح ہی وتر پڑھائے اور امام ان کی اس چاہت کو تالیف قلبی کیلیے پورا کر دے تو یہ اچھا اقدام ہوگا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: (اگر تمہاری قوم عہدِ جاہلیت سے نئی نئی باہر نہ آئی ہوتی تو میں کعبہ کی دوبارہ تعمیر کرتا اور اس کی تعمیر زمین کے برابر سے شروع کرتا، اور اس کے دو دروازے بنا دیتا ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے باہر نکلتے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل عمل صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ کہیں لوگ ان سے متنفر نہ ہوں" انتہی
" الفتاوى الكبرى " ( 2 / 476 )
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات