اگر خاوند ظاہريہ اور ابن حزم اور علامہ البانى رحمہم اللہ كى رائے پر عمل كرتا ہو كہ جماع كے بغير منى خارج ہونے سے روزہ نہيں ٹوٹتا تو كيا اس كے ليے رمضان المبارك ميں دن كے وقت روزے كى حالت ميں بيوى سے بوس و كنار كرنا جائز ہے، چاہے ايسا كرنے سے مذى يا منى بھى خارج ہو جائے ؟
كيا بيوى سے مباشرت كے مسئلہ ميں ابن حزم كى رائے ركھنے والا شخص روزے كى حالت ميں بيوى سے بوس و كنار كر سكتا ہے ؟
سوال: 66803
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مذى كا منى خارج ہونے سے حكم مختلف ہے، اہل علم كے اقوال ميں سے راجح قول يہى ہے كہ مذى نكلنے سے روزہ باطل نہيں ہوتا، چاہے مرد كى خارج ہو يا عورت كى، اس مسئلہ كے متعلق اہل علم كے اقوال سوال نمبر (49752 ) كے جواب ميں بيان كيے جا چكے ہيں.
دوم:
يہ جاننا ضرورى ہے كہ صرف اپنى خواہش اور اشتھاء كى بنا پر كسى بھى عالم دين كا قول لينا حلال نہيں، يا اس ليے كسى عالم دين كا قول ليا جائے كہ وہ قول اس كے چاہت كے مطابق ہے، علماء كرام كے اختلاف كے وقت واجب يہى ہے كہ اسى پر عمل كيا جائے جس كا حكم اللہ تعالى نے ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اگر تمہارا كسى چيز ميں باہم اختلاف پيدا ہو جائے تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہو، تمہارے ليے يہ بہتر ہے، اور انجام كے اعتبار سے بہت اچھا ہے النساء ( 59 ).
اس ليے كسى كے ليے يہ كہنا حلال نہيں كہ: ميں علماء ميں سے فلاں كے قول پر عمل كرتا ہوں، حالانكہ وہ قول نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح حديث كے متصادم ہو.
اسى ليے امام شافعى رحمہ اللہ كہا كرتے تھے:
علماء كرام كا اجماع ہے كہ جس كے ليے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت واضح ہو چكى ہو تو اس كے ليے اسے كسى شخص كے قول كى بنا پر ترك كرنا جائز نہيں . اھـ
ديكھيں: مدارج السالكين ( 2 / 335 ).
چنانچہ جب صحيح دلائل كے ساتھ حكم ثابت ہو چكا ہو تو پھر كسى شخص كو بھى كوئى قول كہنے كا حق حاصل نہيں چاہے وہ كوئى بھى ہو.
مشت زنى كرنا، يا عورت سے مباشرت كرنا حتى كہ منى خارج ہو جائے تو يہ روزہ توڑ دےگا، جمہور علماء كرام كا قول يہى ہے: ( جن ميں آئمہ اربعہ امام ابو حنيفہ، امام مالك، امام شافعى، اور امام احمد رحمہم اللہ شامل ہيں ) ان كا استدلال يہ ہے كہ: اس نے اپنى شہوت پورى كى ہے، اور روزے دار كے ليے ايسا كرنا ممنوع ہے، كيونكہ حديث قدسى ميں اللہ تعالى كا روزے دار كے متعلق يہ فرمان ہے:
” وہ كھانا پينا اور اپنى شہوت ميرى وجہ سے چھوڑتا ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1894 ).
اس كى تفصيل سوال نمبر (71213 ) اور (65698 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے اس كا مطالعہ كريں.
ہم اس كا انكار نہيں كرتے كہ اس مسئلہ ميں اختلاف نہيں، بلكہ اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے، ابن حزم رحمہ اللہ كى رائے يہى ہے كہ بيوى سے مباشرت يعنى بوس و كنار كے وقت منى خارج ہونے سے روزہ نہيں ٹوٹتا، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسى رائے كو راجح قرار ديا ہے.
چنانچہ اگر كوئى شخص علمى طور پر اس رائے كو اپنائے، اور اسے اپنى خواہش كے مطابق نہيں بلكہ علمى طور پر اپنائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ انسان اسى چيز كا مكلف ہے جہاں تك اس كا علم پہنچا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اس رائے كو دلائل اور علماء كرام كے اقوال كے مطابق اپنائے، نہ كہ صرف رخصت اور سہل پسندى كے طور پر.
اس ليے كسى بھى مسلمان كے ليے جائز نہيں كہ وہ علماء كرام كى غلطيوں پر عمل كرتا پھرے، كيونكہ ايسا كرنے سے اس ميں ہر قسم كا شر جمع ہو جائيگا، اسى ليے علماء كرام كا كہنا ہے:
جس نے بھى علماء كرام كے اختلافات پر عمل كيا، اور ان كے اقوال كى بنا پر رخصتوں پر عمل كرنا شروع كر ديا تو وہ زنديق بن گيا يا پھر زنديق ہونے كے قريب پہنچ گيا ” انتہى.
ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 228 ).
زنديق منافق كو كہنے ہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (22652 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس ليے سائل كو يہ نصيحت كى جاتى ہے كہ وہ اسى پر اكتفا كرے جس پر علماء كرام كا اتفاق ہے وہ يہ كہ بغير انزال كيے بيوى كو چھونا اور بوسہ لينا تا كہ روزے ميں احتياط ہو سكے، اور وہ برى الذمہ رہے، اور نہ تو روزے كو فاسد كرنے كا باعث بنے، اور نہ ہى حرام فعل كے ارتكاب كا خدشہ رہے، يعنى روزے كى حالت ميں جماع جيسى حرام چيز سے اجتناب رہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات