ميں والدہ كو ايك ہزار ريال ماہانہ ديا كرتا تھا، حالانكہ انہيں مال كى ضرورت نہ تھى، يہ اس ليے ديتا كہ والدين كى نيكى ميں سے كچھ حصہ لوٹا سكوں، والدہ يہ رقم جمع كرتى رہتى رہى ہيں، اور كچھ عرصہ بعد ميں نے اپنا گھر تعمير كرنا شروع كيا تو مجھے رقم كى ضرورت پڑى اس ليے ميں نے والدہ كو ماہانہ دينا بند كر ديا، پھر ميرى والدہ ميں يہ تجويز پيش كى كہ ميں اور ميرى ( شادى شدہ ) بہن يہ رقم آپس ميں تقسيم كر ليں، كيونكہ بہن كى مالى حالت صحيح نہيں، يہ علم ميں رہے كہ اس شادى شدہ بہن كے علاوہ بھى ميرى ايك بہن اور بھائى جو بہتر زندگى بسر كر رہے ہيں، سوال يہ ہے كہ:
كيا دوسرى بہن اور بھائى كو ديے بغير ميرے اور ميرى محتاج بہن كے ليے يہ مال آپس ميں تقسيم كرنا جائز ہے، اوراگر جائز نہيں تو پھر والدہ يہ رقم كس طرح تقسيم كر سكتى ہيں ؟
ماں كا اپنى اولاد كو عطيہ دينے ميں عدل كرنا واجب ہے
سوال: 67652
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ وتعالى نے عطيہ ديتے وقت اولاد كے مابين عدل و انصاف كرنا واجب كيا ہے، چاہے اولاد ميں لڑكے ہوں يا لڑكياں بھى.
نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے والد انہيں لے كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور كہنے لگے:
" ميں نے اپنے اس بيٹے كو ايك غلام ہبہ كيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
كيا تو نے اپنے سب بيٹوں كو اسى طرح ( غلام ) ہبہ كيا ہے ؟
تو انہوں نے عرض كيا: نہيں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
تو اس سے غلام واپس لے لو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2446 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1623 ).
اور جب والد اپنى اولاد ميں سے كسى ايك كو عطيہ دينے ميں افضليت دے تو اسے چاہيے كہ وہ اولاد ميں عدل و انصاف كرے، يہ دو ميں سے ايك طرح ہو سكتا ہے:
يا تو وہ ديا گيا ہديہ واپس لے لے.
يا پھر دوسروں كو بھى اسى طرح كا ہديہ دے، يا كہ ان سب كے مابين انصاف ہو سكے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 11 / 359 ).
دوم:
" اولاد ميں سے كسى ايك كو افضليت دينے كى ممانعت ميں والدہ كا حكم بھى والد كى طرح ہى ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ كا تقوى اختيار كرو اور اللہ سے ڈر كر اپنى اولاد كے مابين عدل كيا كرو "
اور اس ليے بھى كہ والدين ميں سے ايك والدہ بھى ہے، تو اسے بھى والد كى طرح كسى كو افضليت دينے سے روك ديا گيا ہے، اور اس ليے بھى كہ والد كى جانب سے كسى ايك بيٹے يا بيٹى كو مخصوص كرنے پر باقى اولاد ميں حسد و بغض پيدا ہوتا ہے، اسى طرح والدہ كى جانب سے كسى ايك كو افضليت دينے ميں بھى حسد و بغض پيدا ہوتا ہے، تو اس طرح والدہ كے ليے بھى اس مسئلہ ميں اس جيسا ہى حكم ثابت ہوا " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 261 ).
سوم:
والد كى جانب سے اپنى اولاد كو عطيہ دينے ميں وراثت كے حساب سے شرعى تقسيم كے طريقہ پر عمل كرنا ہوگا، تو اس طرح ايك لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ديا جائيگا، كيونكہ اللہ تعالى كى تقسيم سے زيادہ عدل و انصاف كرنے والا كوئى اور نہيں ہو سكتا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ " الاختيارات " ميں لكھتے ہيں:
" اپنى اولاد كے مابين عطيہ ديتے وقت وراثت كے حساب سے عدل كرنا واجب ہے، امام احمد كا مسلك يہى ہے " انتہى.
ديكھيں: الاختيارات ( 184 ).
قاضى شريح رحمہ اللہ نے اپنى اولاد كے مابين مال تقسيم كرنے والے ايك شخص كو كہا تھا:
" تيرى تقسيم سے تو اللہ تعالى كى تقسيم زيادہ عدل و انصاف پر مبنى ہے، اس ليے تم انہيں اللہ تعالى كى تقسيم اور فرائض كے مطابق دے "
اسے عبد الرزاق نے المصنف ميں روايت كيا ہے.
اور عطاء رحمہ اللہ كا قول ہے:
وہ تو اللہ تعالى كى كتاب كے مطابق ہى تقسيم كيا كرتے تھے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 261 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" آپ كے والد پر لازم ہے كہ اگر وہ اپنا سارا يا مال كا كچھ حصہ اپنى اولاد كے مابين تقسيم كرنا چاہے تو وہ لڑكے اور لڑكيوں سب ميں شرعى وراثت كے مطابق تقسيم كرے، ايك لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر دے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 197 ).
چہارم:
جب اولاد بڑى اور ہوشيار ہو تو باپ يا ماں كے ليے جائز ہے كہ وہ ان ميں سے كسى ايك كو باقى اولاد كى رضامندى اور بغير كسى حرج كى پريشانى كے دے سكتا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" والد پر اپنى اولاد بيٹے اور بيٹيوں ميں وراثت كے مطابق عدل كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان ميں سے كسى اور كو مخصوص كر كچھ دے اور دوسروں كو نہ دے، ليكن اگر محروم اولاد كى رضامندى اور خوشى سے ايسا كرے تو جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ جب وہ ہوشيار ہوں تو پھر جائز ہے، وگرنہ نہيں، اور ان كى رضامندى والد كے خوف اور ڈر سے نہ ہو بلكہ وہ اس ميں اپنے دل سے رضامند ہوں، نہ كہ والد كے خوف سے، ہر حالت ميں ان كے درميان افضليت نہ دينا بہتر اور اچھا ہے اور ان كے دلوں كے ليے بھى زيادہ پاكيزہ ہوگا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
اللہ تعالى سے ڈرو اور اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف سے كام لو "
متفق عليہ. انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 452 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" بلاشك و شبہ اولاد ميں سے كچھ بچے دوسرے سے بہتر اور اچھے ہوتے ہيں، يہ تو سب كو معلوم ہے، ليكن اس بنا پر والد كے ليے كسى ايك كو افضليت دينى جائز نہيں، بلكہ اسے عدل و انصاف كرنا چاہيے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى سے ڈرو اور اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف كيا كرو "
اس ليے اس بنا پر كسى ايك كو افضليت دينى جائز نہيں كہ يہ اس سے افضل اور بہتر ہے، اور يہ اس سے زيادہ حسن سلوك كرتا ہے، بلكہ والد كو چاہيے كہ وہ ان سب كے درميان عدل و انصاف كرے.
اور سب كو نصيحت كرنى چاہيے تا كہ وہ حسن سلوك كرنے لگيں اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى پر قائم ہو جائيں؛ ليكن وہ اولاد كو عطيہ دينے ميں كسى ايك بيٹے كو دوسرے پر افضليت مت دے، اور نہ ہى كسى ايك كے ليے مال كى وصيت كرے اور باقى كو چھوڑ دے؛ بلكہ وہ سب وراثت اور عطيہ ميں برابر ہيں جس طرح شريعت ميں وراثت اور عطيہ كے متعلق وارد ہے.
وہ ان ميں عدل و انصاف اسى طرح كرے جس طرح شريعت ميں آيا ہے، اس ليے لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ملےگا، لہذا اگر وہ اپنى اولاد ميں سے بيٹے كو ايك ہزار ديتا ہے تو بيٹى كو پانچ سو دے، اور اگر وہ ہوشيار اور عاقل و بالغ ہوں اور وہ ايسا كرنے كى اجازت دے ديں اور كہيں كہ ہمارے بھائى كو اتنا ہى دے دو، اور واضح طور پر اس كى اجازت ديں اور كہيں كہ ہم اجازت ديتے ہيں كہ آپ اسے گاڑى دے ديں، يا اتنا مال دے ديں … اور والد كو علم ہو جائے كہ ان كى يہ اجازت حقيقى ہے، اور اس ميں لگى لپٹى نہيں، اور نہ ہى انہوں نے والد كے خوف سے اجازت دى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
مقصد يہ ہے كہ اسے عدل و انصاف كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، ليكن اگر اولاد ہوشيار اور عاقل و بالغ ہو چاہے وہ لڑكے ہوں يا لڑكياں اور وہ كسى ايك كو كسى مخصوص اسباب كى بنا پر كچھ دينے كى اجازت دے ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، يہ انہيں حق حاصل ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 235 ).
اس بنا پر آپ كى والدہ پر واجب ہے كہ وہ آپ كے مابين اس مال ميں عدل و انصاف سے كام لے، اور لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر دے، اور اگر كسى ايك كو دوسروں كى رضامندى اور خوشى سے افضليت حاصل ہو تو ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب