استحاضہ كےنتيجہ ميں كيا احكام مرتب ہوتے ہيں ؟
استحاضہ كے احكام
سوال: 68810
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال نمبر ( 68818 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ حيض كا خون كب ہوگا، اور استحاضہ كا كب، اس ليے جب حيض كا خون ہو تو اسے حيض كے احكام ديے جائينگے، اور جب استحاضہ كا خون آئے تو اسے استحاضہ كے احكام ديے جائينگے.
حيض كے متعلق اہم احكام كا ذكر سوال نمبر ( 70438 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے، اس كا مطالعہ كريں.
اور استحاضہ كے احكام طہر والے ہى ہيں، اس ليے استحاضہ والى عورت اور طاہر و پاك صاف عورت ميں كوئى فرق نہيں، صرف درج ذيل امور ميں:
اول:
استحاضہ والى عورت ہر نماز كے ليے نيا وضوء كرےگى كيونكہ فاطمہ بنت ابى حبيش رضى اللہ تعالى عنہا كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:
" پھر تم ہر نماز كے ليے وضوء كرو "
صحيح بخارى باب غسل الدم.
اس كا معنى يہ ہوا كہ استحاضہ والى عورت مؤقتہ نماز كے ليے نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد وضوء كرےگى، ليكن اگر نماز مؤقتہ نہيں تو وہ جب نماز ادا كرنا چاہے اس وقت وضوء كرےگى.
دوم:
استحاضہ والى عورت جب وضوء كرنا چاہے تو وہ خون دھو كر لنگوٹ وغيرہ ميں روئى اور كپڑا وغيرہ ركھ كر باندھے گى تا كہ خون باہر نہ نكلے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حمنہ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" روئى ركھ ليا كرو، كيونكہ يہ خون كو چوس ليتى ہے، تو وہ كہنے لگى: خون اس سے زيادہ ہوتا ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر كپڑا ركھ لو، تو وہ كہنے لگى: خون اس سے بھى زيادہ ہوتا ہے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر لنگوٹ كس لو " الحديث.
اس كے بعد خارج ہونے والا خون كوئى نقصان نہيں دےگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ بنت ابى حبيش رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" اپنے حيض كے ايام ميں نماز ادا نہ كرو، پھر غسل كر كے ہر نماز كے ليے وضوء كر كے نماز ادا كرلو، چاہے خون چٹائى پر بھى گرتا رہے "
مسند احمد اور ابن ماجہ نے اسے روايت كيا ہے.
سوم:
استحاضہ كى حالت ميں جماع كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے كہ اگر اسے ترك كرنے ميں كوئى مشقت كم ہونے كا خدشہ نہ ہو، ليكن صحيح يہى ہے كہ مطلقا جماع جائز ہے، كيونكہ دسيوں عورتيں يا اس سے بھى زيادہ كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں استحاضہ آيا ليكن نہ تو انہيں اللہ تعالى نے اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جماع سے منع كيا.
بلكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
حيض كى حالت ميں عورتوں سے عليحدہ رہو .
يہ اس بات كى دليل ہے كہ حيض كے علاوہ ميں ان سے عليحدہ رہنا ضرورى نہيں، اور اس ليے بھى كہ استحاضہ كى حالت ميں نماز كى ادائيگى جائز ہے، تو جماع اس سے بھى كم ہے.
اور استحاضہ عورت كے ساتھ جماع كو حيض والى عورت كے ساتھ جماع پر قياس كرنا صحيح نہيں، كيونكہ يہ دونوں برابر نہيں، حتى كہ حرام كہنے والوں كے ہاں بھى، اور يہ قياس مع الفارق ہے جو صحيح نہيں " انتہى.
ماخوذ از: رسالۃ فى الدماء الطبيعيۃ للنساء تاليف شيخ ابن عثيمين
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات