ايك حاملہ عورت كو رمضان المبارك ميں ولادت سے پانچ روز قبل خون آنا شروع ہو گيا كيا يہ حيض كا خون ہے يا نفاس كا اور اس پر كيا لازم آتا ہے ؟
0 / 0
9,09310/02/2007
ولادت سے قبل آنے والے خون كا حكم
سوال: 6944
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا بيان ہوا ہے كہ حاملہ عورت كو ولادت سے پانچ روز قبل خون آنا شروع ہوگيا اگر تو اسے قرب ولادت كى كوئى علامت وغيرہ مثلا درد زہ نظر نہيں آتى تو يہ خون نہ تو حيض كا ہے اور نہ ہى نفاس كا بلكہ صحيح قول كے مطابق يہ فاسد خون ہے.
اس بنا پر وہ عبادات ترك نہيں كرےگى بلكہ روزہ بھى ركھےگى اور نماز بھى ادا كرےگى، ليكن اگر اس خون كے ساتھ ولادت قريب ہونے كى كوئى علامت ہو تو يہ نفاس كا خون شمار ہوگا، اس كى بنا پر نماز روزہ ترك كيا جائيگا، اور ولادت كے بعد نفاس سے پاك ہونے كے بعد روزوں كى قضاء كى جائيگى، ليكن نمازوں كى نہيں.
ماخذ:
فتاوى اللجنۃ الدائمۃ