ہميں يہ تو علم ہے كہ حصص ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے، تو كيا دستاويز اور رسيد پر بھى زكاۃ لاگو ہوتى ہے ؟ اور اس كى زكاۃ كيسے شمار ہو گى ؟
حصص اور دستاويز ميں فرق
سوال: 69941
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
حصص پر زكاۃ كى تفصيل سوال نمبر ( 69912 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، كہ حصص ميں كچھ تو ايسے ہيں جن پر زكاۃ واجب ہوتى ہے اور كچھ ايسے ہيں جن پر زكاۃ واجب نہيں ہوتى.
ليكن دستاويز يہ حصص كے علاوہ ہيں.
دستاويز اور وثيقہ قرض يہ ايك معاہدہ لكھا ہوتا ہے جس ميں حاصل كردہ قرض كى تاريخ اور مبلغ اور مقرر فائدہ درج ہوتا ہے.
ليكن حصص ميں ايسا نہيں بلكہ وہ تو حصص كمپنى كے راس المال ميں شراكت كا ايك حصہ ہے.
تو ان دونوں تعريفوں سے حصص اور دستاويز كے مابين فرق واضح ہو جاتا ہے.
حصص اور سند يا دستاويز اور وثيقہ قرض ميں فرق:
1 – حصہ اور شئر كمپنى ميں حصہ كے درجہ پر ہوتا ہے، دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ حصہ كا مالك كمپنى ميں شراكت دار ہے، ليكن دستاويز اور وثيقہ قرض كمپنى كے ذمہ قرض كے درجہ ميں ہے، دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ دستاويز كا مالك قرض دينے والا يا قرض خواہ ہے.
اس بنا پر حصص كا مالك نفع اس وقت ہى حاصل كر سكتا ہے جب كمپنى صرف نفع حاصل كرے، ليكن دستاويز كا مالك تو مستقل طور پر سالانہ فائدے كا مالك ہوتا رہےگا چاہے كمپنى كو نفع ہو يا نہ ہو.
اس بنا پر يہ بھى ہے كہ جب كمپنى خسارہ كا شكار ہو جائے تو حصص كا مالك بھى اس خسارہ كا كچھ حصہ بطور خسارہ اٹھائيگا، جتنا حصہ اس نے مشاركت كر ركھى ہے، كيونكہ وہ كمپنى كا شريك اور اس كے حصے كا مالك ہے، تو خسارہ كا كچھ حصہ اسے بھى ضرور اٹھانا ہوگا.
ليكن دستاويزاور وثيقہ قرض كا مالك كمپنى كے خسارہ ميں سے كچھ بھى نہيں اٹھائيگا، كيونكہ وہ كمپنى ميں شريك نہيں، بلكہ وہ تو صرف قرض دينے والا ہے، اس كے بدلے وہ حسب اتفاق فائدہ حاصل كريگا، چاہے كمپنى كو خسارہ ہو يا نفع.
دستاويز يا وثيقہ قرض كے لين دين كا حكم:
دستاويز كا لين دين كرنا شرعا حرام ہے، كيونكہ يہ دستاويز قرض كے مقابلہ ميں حسب اتفاق فائدے كا حصول ہے، اور يہى وہ سود ہے جسے اللہ تعالى نے حرام كيا اور اس پر شديد قسم كى وعيد سناتے ہوئے فرمايا ہے:
اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم پكے اور سچے مومن ہو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ لڑائى كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو اصل مال تمہارے ہى ہيں، نہ تو تم خود ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 278 – 279 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى سود كھانےاور سود كھلانے اور سود لكھنے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى ہے، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2995 ).
كويت ميں تجارت اسلامى كى دوسرى كانفرس منعقدہ 1403 ھـ الموافق 1983 ميلادى ميں بيان ہوا ہے كہ:
يورپى اقتصاديوں اور ان كے پيچھے چلنے والوں كى اصطلاح ميں جسے فائدہ كا نام ديا گيا ہے وہ بعينہ سود ہے اور شرعا حرام ہے " انتہى.
ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 732 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2143 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دستاويز يا وثيقہ قرض كى زكاۃ:
باوجود اس كے كہ ان دستاويز كا لين دين كرنا حرام ہے، اس پر زكاۃ واجب ہوتى ہے، كيونكہ يہ مالك كے ليے قرض كى جگہ پر ہے، اور جس قرض كے حصول كى اميد ہو جمہور علماء كے ہاں اس پرزكاۃ واجب ہے، تو اس طرح ہر برس اس پر زكاۃ كا حساب لگايا جائيگا، ليكن اس كے ليے زكاۃ اس وقت نكالنا لازم ہو گى جب وہ ان دستاويز كى قيمت حاصل كر لے، ليكن اس پر حاصل ہونے والے فائدہ جو وہ اس دستاويز كے مقابل حاصل كر رہا ہے وہ خبيث اور حرام مال ہے، اسے نيكى و بھلائى اور خير كے كاموں ميں صرف كر كے اس سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے.
زكاۃ كا حساب اڑھائى فيصد ہے يعنى اڑھائى فيصد كے حساب سے زكاۃ نكالى جائيگى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات