داؤن لود کریں
0 / 0
615229/04/2005

ڈاكخانہ ميں مال جمع كرانا اور زكاۃ نكالنے كى كيفيت

سوال: 70315

ميرا كچھ مال ڈاكخانہ ميں ہے جو نصاب سے كم ہے، اور كچھ مال ميں نے اسلامى بنك ميں ركھا ہوا ہے، تو ميں زكاۃ كس طرح ادا كروں، يہ علم ميں رہے كہ دونوں مال جمع كرنے سے نصاب پورا ہو جاتا ہے ؟

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ڈاكخانوں اور سودى بنكوں ميں مال ركھنا
جائز نہيں، جو خود بھى سود كھاتے اور مال جمع كروانے والوں كو بھى سود كھلاتے ہيں،
اور ان دونوں جگہوں ميں مال ركھنے والا شخص اس سے خالى نہيں رہتا، يا تو وہ سود كھائے
گا، يا پھر كھلائے گا، اور يا دونوں كام كرے گا.

ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان
كرتے ہيں كہ:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے
سود كھانے اور كھلانےوالے پر لعنت فرمائى ”

صحيح بخارى جديث نمبر ( 5032 ).

دوم:

جو نصاب تك پہنچنے والى رقم كا مالك
ہو ـ چاہے وہ رقم متفرق ہو كچھ ايك جگہ اور كچھ دوسرى جگہ ـ تو سال گزرنے كے بعد اس
كى زكاۃ ادا كرنا واجب ہے، اور سال كا حساب نصاب پہنچنے كى تاريخ سے شروع كيا جائے
گا، جب اسلامى سال مكمل ہو جائے تو اس كى زكاۃ نكالى جائے گى، اور زكاۃ اڑھائى فيصد
كے حساب سے ادا كرنا ہو گى.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android
at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android