0 / 0
6,92429/08/2008

اگر كل رمضان ہوا تو ميں روزہ سے ہوں

سوال: 70479

اگر رمضان كا چاند نظر آنے كا اعلان نہ ہوا ہو، اور انسان يہ كہہ كر جلد سو جائے كہ اگر صبح رمضان ہوا تو ميں روزہ ركھونگا، تو كيا يہ نيت كافى ہوگى اور اس كا روزہ صحيح ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اس مسئلہ ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور نيت كى تعيين كے مسئلہ كى بنا پر اس ميں دو قول ہيں:

كہ آيا رمضان كى يقينى نيت كرنى واجب ہے، يا كہ صرف روزہ كى نيت كرنى ہى كافى ہوگى، چاہے نفلى يا فرضى روزہ كى نيت كى جائے.

مالكيہ، شافعيہ، اور حنابلہ ميں سے جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ رمضان كے روزے كى نيت متعين كرنى شرط ہے.

اور حنفيہ كہتے ہيں كہ: نيت كى تعيين شرط نہيں، اور امام احمد كى بھى ايك روايت يہى ہے.

تو اس قول كى بنا پر اس شخص كا روزہ صحيح ہے، جو يہ كہے كہ اگر صبح رمضان ہوا تو ميرا فرضى روزہ ہے.

الفروع كے مصنف كہتے ہيں:

" امام ملك اور امام شافعى كے قول كے مطابق ہر فرضى روزہ كى نيت كى تعيين واجب ہے، وہ اس طرح كہ يہ اعتقاد ركھے كہ وہ رمضان كا فرضى، يا رمضان كى قضاء يا نذر يا كفارہ كا روزہ ركھا رہا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو وہ نيت كرتا ہے "

اور امام احمد رحمہ اللہ سے ايك دوسرى روايت يہ ہے كہ:

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے قول كے مطابق رمضان كے روزے كى نيت كى تعيين واجب نہيں، كيونكہ تعيين سے تميز مراد ہوتى ہے، اور يہ وقت تو متعين ہے، تو اس بنا پر اس كى مطلقا نيت كرنا صحيح ہو گى، اور جس فرض ميں اسے تردد ہے اس كى نيت ميں….

اور ان كا يہ قول: فرض كى نيت جس ميں اسے تردد ہے كہ شك والى رات نيت كرے:

يعنى اگر صبح رمضان ہوا تو ميرا فرضى روزہ ہوگا، اور اگر نہ ہوا تو ميرا نفلى روزہ ہے.

پہلى روايت كے مطابق كفائت نہيں كريگى، جب تك وہ يقينى نيت نہ كرے كہ صبح رمضان كا روزہ ہے، اور دوسرى روايت كى بنا پر نيت كفائت كر جائيگى " انتہى.

ديكھيں: الفروع ( 3 / 40 ).

اور الانصاف ميں ہے:

" اور اگر اس نے يہ نيت كى كہ: اگر كل رمضان ہوا تو ميرا فرضى روزہ ہے، اور اگر رمضان نہ ہوا تو نفلى، يہ اسے كفائت نہيں كريگى، اور مذہب بھى يہى ہے، اور اكثر اصحاب بھى اسى پر ہيں، اور يہ تعيين نيت كى شرط پر مبنى ہے.

اور امام احمد سے روايت ہے كہ: يہ اسے كفائت كر جائيگى، يہ اس روايت پر مبنى ہے كہ: رمضان كے ليے نيت كى تعيين واجب نہيں.

اور شيخ تقى الدين نے اسى روايت كو اختيار كيا ہے، " الفائق " ميں كہتے ہيں: صاحب المحرر اور ہمارے شيخ نے اس كى تائيد و نصرت كى ہے، اور اختيار بھى يہى ہے " انتہى.

ديكھيں: الانصاف ( 3 / 295 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ ضرور كريں:

البحر الرائق ( 2 / 280 ) مجمع الانھار ( 1 / 233 ) مغنى المحتاج ( 2 / 150 ) المغنى ( 3 / 9 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 5 / 165 ) اور ( 28 – 22 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " الزاد " كے مصنف كے درج ذيل قول :

" اور اگر اس نے يہ نيت كى كہ اگر صبح رمضان ہوا تو ميرا فرضى روزہ ہے: يہ كفائت نہيں كريگى "

ابن عثيمين اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" يہ مسئلہ اہم ہے اور بہت زيادہ پيش آتا ہے: اس كى مثال يہ ہے كہ: تيس شعبان كو ايك شخص جلد سو گيا، اور اس ميں احتمال ہے كہ يہ رمضان كى پہلى رات ہو، تو وہ كہتا ہے: اگر صبح رمضان ہوا تو ميرا فرضى روزہ ہے، يا پھر وہ يہ كہتا ہے: اگر صبح رمضان ہوا تو ميرا روزہ، يا يہ كہے: اگر صبح رمضان ہوا تو فرضى، وگرنہ وہ واجب كفارہ يا اس طرح كے مشابہ كوئى اور معلق قسم ميں سے، تو اس ميں صحيح مذہب يہى ہے كہ يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ اس كا يہ كہنا: اگر رمضان ہوا تو ميرا فرضى روزہ ہے، اس كے اس قول ميں تردد ہے، اور نيت كے ليے بالجزم اور يقين ہونا ضرورى ہے، اور اگر وہ طلوع فجر سے پہلے بيدار نہ ہوا اور اسے پتہ چلا كہ آج تو رمضان ہے تو مؤلف كے قول كے مطابق اس كے ذمہ اس دن كے روزہ كى قضاء ہو گى.

اور امام احمد سے دوسرى روايت يہ ہے كہ: اگر يہ واضح ہوا كہ رمضان ہے تو اس كا روزہ صحيح ہوگا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے، اور لگتا ہے يہ ضباعۃ بنت زبير رضى اللہ تعالى عنہا كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كے عموم ميں داخل ہوتا ہے:

" تم حج كرو، اور يہ شرط لگا لو كہ جہاں تو مجھے روك دے وہى ميرے حلال ہونے كى جگہ ہے، تو جو تم استثناء كروگى وہ آپ كے رب پر تيرے ليے ہوگا "

تو اس شخص نے اسے معلق ركھا ہے، اس ليے كہ وہ نہيں جانتا كہ كل رمضان ہو گا يا نہيں، تو اس كا تردد رمضان كے مہينہ كى ابتدا ميں تردد ہونے پر مبنى ہے، نہ كہ نيت ميں تردد پر، اور اس پر كہ آيا وہ روزہ ركھےگا يا نہيں ؟

اس ليے اگر وہ يكم رمضان كى رات يہ كہتا ہے كہ: ميں ممكن ہے كل روزہ ركھوں، اور ممكن ہے نہ ركھوں.

تو ہم كہينگے كہ: يہ صحيح نہيں، كيونكہ وہ متردد ہے…. اور اس بنا ہميں چاہيے كہ اگر تيس شعبان كو رمضان كا چاند نظر آنے كى خبر ملنے سے قبل ہم سونا چاہيں تو يہ نيت كريں كے اگر صبح رمضان ہوا تو ہم روزہ ركھينگے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 375 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android