کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جن مسائل میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، ان مسائل کے بارے میں اگر کسی نے ایک موقف اپنایا تو اس کی تردید نہیں کی جاسکتی، اس بارے میں یہ قاعدہ پیش کرتے ہیں کہ: "اختلافی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے" تو کیا یہ اصول صحیح ہے؟
کیا اختلافی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے ؟
سوال: 70491
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
کچھ لوگوں کی زبانوں پر عام طور پرکہا جانے والا یہ اصول کہ: " اختلافی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے " صحیح نہیں ہے،بلکہ درست یہ ہے کہ: " اجتہادی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے " اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
علمائے کرام کا جن مسائل میں اختلاف ہے، یہ دو قسم کے ہیں:
اول: ایسے مسائل جن کا حکم قرآن کریم یا صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، اور اس حکم کے مخالف کوئی دلیل نہیں ہے، یا کسی حکم کے بارے میں اجماع نقل کیا گیا تھا لیکن کچھ متاخرین نے اس اجماع کی مخالفت کی، یا اس حکم کی دلیل قیاس جلی ہے ، تو ایسے مسائل کی مخالفت کرنے والے کی تردید کی جائے گی، اور اس قسم کے مسائل کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، مثلا:
1- اللہ تعالی کی ان صفات کا انکار کرنا جنہیں اللہ تعالی نے اپنی مدح و تعریف کرتے ہوئے بیان کیا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ صفاتِ الہیہ کو "تاویل" کے نام پر مسترد کرنا، حالانکہ درحقیقت یہ "تاویل"نہیں بلکہ کتاب و سنت کی نصوص کی تحریف ہے۔
2- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کردہ روزِ قیامت کو رونما ہونے والے کچھ امور کو مسترد کرنا، مثلا: میزان، اور پل صراط۔
3- کچھ معاصرین کی جانب سے بینکوں میں جمع شدہ مال پر فائدہ وصول کرنا، حالانکہ یہی وہ سود ہے جسے اللہ اور اسکے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔
4- نکاحِ حلالہ کو جائز قرار دینا، حالانکہ یہ باطل موقف ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کرنےاور کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
5- موسیقی، اور گانے باجے کو جائز سمجھنا، یہ موقف بدترین موقف ہے، اس موقف کے باطل ہونے کیلئے قرآن و سنت کے متعدد دلائل، اور سلف صالحین کا فہم موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ ان تمام امور کے حرام ہونے کے متعلق متفق ہیں۔
6- یہ کہنا کہ جمعہ کے دن امام صاحب کے خطبہ کے دوران مسجد میں داخل ہونے والا شخص خطبہ سننے کیلئے بیٹھ جائے، اور تحیۃ المسجد ادا نہ کرے۔
7- نماز میں رکوع جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کو مستحب نہ سمجھنا۔
8- نماز استسقاء کو مستحب نہ سمجھنا، حالانکہ بخاری و مسلم وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور صحابہ کرام سے عملا نماز استسقاء ثابت ہے۔
9- رمضان کے بعد شوال کے چھ روزوں کو مستحب نہ سمجھنا۔
مذکورہ بالا مسائل ، اور اسی طرح اور بھی بہت سے مسائل ایسےہیں جن کے حکم کے بارے میں واضح نصوص موجود ہیں ، ان مسائل کے حکم میں کتاب و سنت کی مخالفت کرنے والے کی تردید کی جائے گی، اور صحابہ کرام سمیت انکے بعد آنے والے ائمہ کرام صحیح دلائل کی مخالفت کرنے والوں کی تردید کرتے چلے آئے ہیں، چاہے مخالفت کرنے والا مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔
دوم: ایسے مسائل جن کا حکم بیان کرنے کیلئے کتا ب وسنت، اجماع یا قیاسِ جلی موجود نہیں ہے، یا حدیث سے حکم تو ملتا ہے لیکن اس حدیث کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے، یا حدیث تو صحیح ثابت ہے لیکن بیان کردہ حکم کیلئے واضح صراحت نہیں ہے، بلکہ احتمال پایا جاتا ہے، یا اس مسئلے کے حکم کے متعلق وارد شدہ دلائل میں ظاہری طور پر تعارض ہے۔
چنانچہ اس قسم کے مسائل کا حکم جاننے کیلئے اجتہاد اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس قسم کے تحت درج ذیل مسائل بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیاوی زندگی میں اللہ تعالی کو دیکھنے کے متعلق اختلاف۔
2- مُردوں کی زندہ افراد کی باتیں سننے کے بارے میں اختلاف۔
3- آلہ تناسل کو چھونےسے ، عورت کو ہاتھ لگانےسے، اور اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کے متعلق اختلاف۔
4- فجر کی نماز میں روزانہ قنوت کرنا۔
5- وتر کی نماز میں قنوت کرنا، اور کیا قنوت رکوع کے بعد ہوگی یا پہلے۔
یہ اور اسی قسم کے دیگر مسائل کے حکم کے بارے میں واضح نصوص موجود نہیں ہیں، لہذا یہ ایسے مسائل ہیں جن میں مخالف رائے رکھنے والے کی تردید نہیں کی جاسکتی، بشرطیکہ وہ کسی معتبر امام کی رائے پر چلے، اور یہ سمجھے کہ ان کا موقف ہی اس مسئلہ کے بارے میں درست ہے، تا ہم یہ جائز نہیں ہے کہ ائمہ کی آراء میں سے اپنی خواہش سے موافقت رکھنے والا موقف اپنا لے ، کیونکہ اس طرح تو ایسے شخص میں ساری برائیاں جمع ہو جائیں گی۔
نیز ان مسائل میں یا اس جیسے دیگر مسائل میں مخالف کی تردید نہ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان مسائل کے بارے میں تحقیق بھی نہ کی جائے، یا دلیل کے مطابق راجح موقف کو تلاش نہ کیا جائے، بلکہ علمائے کرام شروع سے لیکر اب تک اس قسم کے مسائل کا حکم تلاش کرنے کیلئے گفتگو، اور بات چیت کرتے آئے ہیں، لہذا جس کے لئے حق بات واضح ہو گئی تو اس پر حق کی طرف رجوع واجب ہو گیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔ اس قسم کے اجتہادی مسائل کی تردید طاقت کے ذریعے نہیں کی جاسکتی، اور کوئی بھی شخص لوگوں کو ان مسائل میں اپنے نقش قدم پر چلنے کیلئے مجبور نہیں کر سکتا، تا ہم دلائل کی روشنی میں گفتگو کر سکتا ہے، چنانچہ جس عالم کو دو اقوال میں سے ایک قول کی درستگی محسوس ہو تو اسی کو اپنا لے، اور جو دوسرے قول کے قائلین کی تقلید کرے تو اس کی تردید نہیں کی جاسکتی" انتہی
"مجموع الفتاوى" (30/80)
درج ذیل میں چند علمائے کرام کے اقوال ہیں جو مذکورہ بالا تقسیم کی تائید کرتے ہیں:
1- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ : "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جاسکتی" یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ اختلافی مسائل میں تردید یا تو کسی حکم سے متعلق ہوگی، یا عمل سے۔
اگر پہلی بات [یعنی: کسی حکم سے متعلق ہے ]، تواگر کوئی حکم احادیث یا اجماعِ قدیم کےمخالف ہوتو اس حکم کی تردید متفقہ طور پر کی جائے گی، اور ایسی صورت میں تردید کرنا واجب ہے، اور اگر احادیث یا اجماعِ قدیم کی مخالفت نہ ہو تو ایسی صورت میں بھی اس حکم کی کمزوری ]اگر ہے تو[بیان کر کے اسکی تردید کی جائے گی، یہ ان لوگوں کا موقف ہے جن کا کہنا ہے کہ :"حق ایک ہوتا ہے" اور یہ موقف اکثر سلف اور فقہائے کرام کا ہے۔
اور اگر عمل کی تردید مقصود ہو، تو احادیث یا اجماع کے مخالف ہونے کی بنا پر تردید کے درجات کے مطابق تردید کی جائے گی۔
لیکن ان صورتوں سے ہٹ کر اگر کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حدیث یا اجماع نہ ہو، اور اس کے بارے میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو ایسی صورت میں اجتہاد یا تقلید کی بنا پر عمل کرنے والے کی تردید نہیں ہوگی۔
اصل میں ان صورتوں میں التباس کا شبہ تب پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو "مسائل پر انکار نہیں ہوتا "کے نظریے کا قائل ہے ، جب وہ یہ اعتقاد رکھنے لگتا ہے کہ اختلافی مسائل اور اجتہادی مسائل ایک ہی ہیں،جیسا کہ بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں، [حالانکہ یہ درست نہیں ہے، بلکہ] پوری امت کے ہاں درست یہ ہے کہ : اجتہادی مسائل وہ مسائل ہوتے ہیں جن میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہوتی جس پر عمل کرنا واضح طور پر واجب ہوجاتا ہے ، مثلا کوئی ایسی صحیح حدیث، جس کے مقابلے میں اسی موضوع پر اسکے ہم پلہ کوئی اور حدیث موجود نہ ہو ، پس اگر ایسی واضح حدیث موجود نہ ہوتو اجتہاد کی گنجائش نکلتی ہے، کیونکہ اس طرح سے دونوں طرف کے دلائل متعارض ہوجاتے ہیں، یایہ کہ انکی دلالت واضح نہیں رہتی" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
"بيان الدليل على بطلان التحليل" (ص 210-211)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
"اجتہادی مسائل میں جس شخص نے چند علمائے کرام کی رائے پر عمل کیا تو اس کا یہ عمل مسترد نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی ایسے شخص سے قطع تعلقی کی جائے گی، اور اگر اجتہادی مسئلہ کے متعلق دو رائے ہیں تو ان میں سے کسی ایک رائے پر عمل کرنے سےاس کا عمل مسترد نہیں ہوگا" انتہی
"مجموع الفتاوى" (20/207)
2- ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور لوگوں کا یہ کہناکہ : "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جاسکتی" یہ درست نہیں ہے۔۔۔ "اس کے بعد انہوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گذشتہ بات نقل کی، اور پھر کہا: "ایک فقیہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ : "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جائے گی" حالانکہ تمام کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے فقہائے کرام نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ: "قاضی کا فیصلہ اگر کتاب و سنت سے متصادم ہو چاہے اس کے فیصلے کو چند علمائے کرام کی تائید حاصل ہو تو قاضی کا فیصلہ کالعدم ہوگا"!؟تاہم اگر کسی مسئلہ کے بارے میں حدیث یا اجماع موجود نہ ہو اور اجتہاد کرنے کی اس میں گنجائش ہو تو ایسی صورت میں جو کوئی اجتہاد یا تقلید کی بنا پر عمل کر لے تو کسی پر کوئی قد غن نہیں ہوگی۔۔۔
اور بہت سے مسائل ہیں کہ جن میں سلف اور خلف کا اختلاف رہا ہے، لیکن اس کے باجود ہمیں دو میں سے ایک قول کے صحیح ہونے کا یقین ہے]یعنی ان میں مخالف کی تردید کرنا جائز ہے[، مثلاً: حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، تین طلاقوں والی عورت کیساتھ دوسرے خاوند کا مباشرت کرنا پہلے خاوند سے شادی کرنے کیلئے شرط ہے، آلہ تناسل اندام نہانی میں داخل کرنے سے غسل واجب ہوجائے گا، چاہے انزال نہ بھی ہو، سودی اضافہ حرام ہے، متعہ کرنا حرام ہے، نشہ آور نبیذ حرام ہے، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، موزوں پر مسح سفر و حضر ہر حالت میں جائز ہے، رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنا سنت ہے، گھٹنوں کے درمیان میں لینا درست نہیں ہے، رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنا مسنون ہے، زمین اور مکان میں شفعہ ثابت ہے، وقف کرنا صحیح ہے، اور مرنے کے بعد تک جاری رہتا ہے، سب انگلیوں کی دیت برابر ہے، تین درہموں کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا، لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر بن سکتی ہے، تیمم ہتھیلی اور کلائی کے جوڑ تک ایک ضرب سے کرنا جائز ہے، میت کی طرف سے اسکا ولی روزے رکھ سکتا ہے، حجاج کرام جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑھتا رہے گا، محرم نے احرام سے پہلے خوشبو لگائی ہو تو احرام کے بعد جسم سے اِ س خوشبو کا آنا مضر نہیں ہے، البتہ احرام کے بعد مزید خوشبو نہیں لگا سکتا، نماز میں سنت یہی ہے کہ دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرے، اور کہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ، خرید و فروخت میں خیارِ مجلس ثابت ہے، دودھ تھنوں میں روکا ہوا جانور واپس کیا جائے گا، اور اس کے دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجوریں دی جائیں گی، نماز کسوف کی ہر رکعت میں دو دو رکوع کیے جائیں گے، ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ کرنا جائز ہے، اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں ، اسی لئے مذکورہ مسائل کا حکم بیان کرتے ہوئے انکے صحیح حکم سے ہٹ کر غلط حکم لگانے پر ائمہ کرام نے ان کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالا جائے گا۔
بہر حال مسائل سے متعلقہ احادیث ]جن کی ہم پلہ کوئی مخالفت نہ ہو[اور آثار مل جانے کے بعد بھی انہیں اہمیت نہ دینا، اور پس پشت ڈالنے والوں کے پاس کل اللہ کے ہاں روزِ قیامت کو کوئی عذر نہیں ہوگا" انتہی
"إعلام الموقعين" (3/ 300-301)
3- ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اپنے فقہی مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے، کیونکہ اجتہادی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جاسکتی" انتہی
"الآداب الشرعية" لابن مفلح (1/186)
4- امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا کہنا ہے کہ : کسی مفتی یا قاضی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان [مفتی یا قاضی صاحبان] کی مخالفت کرنے والوں پر اعتراض کریں، بشرطیکہ معترض واضح نص، اجماع یا قیاسِ جلی کی مخالفت نہ کرے" انتہی
5- شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر" اختلافی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے"کے قائل کی مراد اختلافی مسائل ہیں تو یہ باطل موقف ہے، جو کہ اجماعِ امت سے متصادم ہے، صحابہ کرام سے لیکر انکے بعد آنے والے سب کے سب لوگ مخالفت اور غلطی کرنے والوں کی تردید کرتے چلے آئے ہیں چاہے غلطی اور مخالفت کرنے والا کوئی بھی ہو، چاہے مخالفت کرنے والا لوگوں میں سب سے بڑا عالم اور متقی ہی کیوں نہ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق دیکر مبعوث فرمایا، اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ، اور آپکی سنت سے متصادم ہر چیز ترک کرنے کا حکم دیا؛ تو اسی حکم کی تعمیل میں یہ بھی شامل ہے کہ علمائے کرام میں سے کسی سے غلطی ہو تو انہیں انکی غلطی کی نشاندہی کی جائے، اور غلطی کو مسترد کیا جائے۔
اور اگر اس سے مراد اجتہادی مسائل ہیں : یعنی ایسے مسائل جن کے بارے میں غلط اور صحیح کا تعین کرنا واضح نہیں ہے، تو پھر یہ بات درست ہے، چنانچہ صرف اس بنیاد پر کسی کی تردید شروع کر دینا کہ وہ تمہارے مذہب پر نہیں ہے، یا لوگوں کی عادات سے متصادم ہے ، یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، اور اسی طرح ہر انسان کسی کو کسی کام کے کرنے کا حکم دے تو دلیل کی بنیاد پر دے، بعینہ اگر کسی کام سے روکے تو دلیل کی بنیاد پر روکے، یہ سب باتیں اللہ تعالی کے فرمان: وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ اور جس کے بارے میں آپکو علم نہیں ہے، اس کے پیچھے مت چلیں [الإسراء : 36] کے تحت آتی ہیں" انتہی
"الدرر السنیۃ" (4/8)
6- علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ جملہ [یعنی: اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کر سکتے] اس وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دروازہ بند کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے، حالانکہ اسکا مقام پچھلی سطور میں ہم آپکو بیان کرچکے ہیں کہ کتنا عظیم ہے، بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اللہ نے اس امت پر واجب قرار دیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے واجب قرار دیا ہے، یعنی: شرعی احکام کا حکم دیا جائے، اور شرعی برائیوں سے روکا جائے، اور ان دونوں عملی اقدامات کیلئے معیار کتاب و سنت ہے، چنانچہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ کتاب سنت میں یا ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی جس کام کے کرنے کا حکم ملے اس کے کرنے کا حکم دے، بالکل اسی طرح جو کام کتاب و سنت میں یا ان دونوں میں سے کسی ایک میں کرنا منع ہو اس کام سے روکے۔
چنانچہ اگر کسی اہل علم کا کوئی موقف کتاب و سنت سے متصادم ہو تو اس کا موقف غلط ہے، جس کی تردید کرنا واجب ہے، اور پھر اس شخص کی تردید کرنا بھی واجب ہے جو اس موقف پر عمل کر رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شریعت کے احکامات پر عمل اور ممنوعات سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ شریعت کتاب و سنت میں موجود ہے"انتہی
"السيل الجرّار" (4/588)
7- شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کرسکتے"یہ جملہ زبان زد عام کرنے والوں کے بارے میں کہتے ہیں:
"اگر ہم یہ مان لیں کہ: " اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کرسکتے " تو دین سارے کا سارا ہی ختم ہوجاتاہے، کیونکہ لوگ رخصتوں کو تلاش کرنا شروع کر دینگے، اور کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں لوگوں کا اختلاف نہیں ہے۔۔۔
اختلافی مسائل کی دو قسمیں ہیں: ایک ایسی قسم ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، یعنی: واقعی اس مسئلہ میں اختلاف ہے، تو ایسی صورت حال میں مجتہد کی تردید نہیں کی جاسکتی، جبکہ عوام الناس کو اس علاقے کے اہل علم کی بات ماننے پر مجبور کیا جائے گا، صرف اس لئے کہ لوگوں میں انتشار پیدا نہ ہو؛ کیونکہ اگر ہم نے عوام الناس کو کہہ دیا کہ : "جو موقف آپکو اچھا لگے اسی پر عمل کرلو" تو پوری قوم ایک امت کی شکل اختیار نہیں کر سکے گی، یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ محترم عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: "عوام اپنے علمائے کرام کے مذہب پر ہوتی ہے"
اختلافی مسائل کی دوسری قسم یہ ہے کہ: جن میں اجتہاد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تو ان میں مخالف رائے رکھنے والے کی تردید کی جائے گی، کیونکہ اس صورت میں اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہو
"لقاء الباب المفتوح" (49/192-193)
واللہ اعلم
مزید کیلئے دیکھیں: "حكم الإنكار في مسائل الخلاف" از: ڈاکٹر فضل الہی.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب