میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہوں، میرے ذمے اس کمپنی کے قانونی معاملات دیکھنا ہے، ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے اور تھوڑے سے کام کے لیے آئندہ روز یا اس سے بھی لیٹ آنے کا کہتے ہیں چاہے معاملہ صرف ایک دستخط کا ہی کیوں نہ ہو، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مجھے مجبورا انہیں کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے پھر وہ فوری کام کر بھی دیتے ہیں، وگرنہ معاملات ہفتوں لیٹ ہو جاتے ہیں، اور تاخیر کی وجہ سے میری کمپنی کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے، واضح رہے کہ میرے تمام کام قانونی ہوتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی قانون شکنی نہیں ہوتی۔ میں نے اس بارے میں اہل علم سے دریافت کیا تو مجھے کہا گیا کہ: یہ رشوت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ تو اپنا حق لے رہے ہیں اور پیسے دے کر اپنے آپ کو ظلم سے بچا رہے ہیں، پھر نہ تو آپ سفید کو سیاہ بناتے ہیں اور نہ ہی سیاہ کو سفید کرتے ہیں۔ تو اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ واضح رہے کہ اگر میں پیسے دے کر کام کروانا چھوڑ دوں تو مجھے کمپنی سے نکال دیا جائے گا، اور کمپنی کے مفادات کو بھی نقصان ہو گا۔
سرکاری ملازم کو کام جلدی کرنے کے لیے پیسے دے سکتا ہے؟
سوال: 70516
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ملازمین کو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا چاہیے، اور اپنی ذمہ داریوں کو مکمل اور احسن طریقے کے ساتھ فوری طور پر ادا کریں ان میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہ کریں، چنانچہ ان کے لیے عوام سے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آنے والوں سے تحائف وغیرہ قبول کرنا بھی جائز نہیں ہے، اسی طرح معاوضہ لے کر کام کرنا یا کام میں تاخیر کرنا بھی حرام ہے، انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ حرام مال ہے جس سے وہ اپنا اور اپنی اولاد کا پیٹ بھر رہے ہیں، نیز یہی وہ رشوت ہے جسے لینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے۔
چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے)
اس حدیث کو امام ترمذی: ( 1337 ) نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح بھی کہا، نیز ابو داود :( 3580 ) اور ابن ماجہ:( 2313 ) میں بھی یہ روایت موجود ہے، اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سنن ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سرکاری اداروں میں کام کرنے والے کسی بھی ملازم کے لیے اپنے ادارے سے متعلقہ کام پر تحائف قبول کرنا حلال نہیں ہے، اگر ہم ملازمین کے تحائف قبول کرنے کی اجازت دے دیں تو یہ در حقیقت رشوت کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہو گا، اور رشوت کا معاملہ بہت خطرناک ہے، کیونکہ رشوت کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، اس لیے ملازمین کو اگر کوئی ان کے کام کی وجہ سے تحفہ دے تو ان کے لیے یہ تحفہ وصول کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس کو تحفے کا نام دیں یا چائے پانی کا نام دیں، یا صدقہ خیرات کا نام دیں، خصوصاً اگر ملازم صاحب حیثیت ہے تو پھر ان کے لیے صدقہ جائز ہی نہیں ہے جو کہ سب کو علم بھی ہے۔" ختم شد
"فتاوى ابن عثیمین" ( 18 / 359 ، 360 )
اسی طرح ملازمین پر رشوت وصول کرنا بھی حرام ہے، ایسے رشوت دینے والے کے لیے بھی رشوت دینا حرام ہے، تاہم اگر دینے والا مجبور ہو کہ رشوت کے بغیر اس کے معاملات نہیں چل پائیں گے یا اس تاخیر کی وجہ سے نقصان اور خطرہ ہو تو ایسی صورت میں رشوت دینے والے پر گناہ تو نہیں ہو گا لیکن لینے والے کو گناہ ضرور ہو گا، یہاں یہ واضح رہے کہ پیسے دے کر اپنے حقیقی حق تک پہنچنا مقصود ہو۔
جیسے کہ علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسی رقم جو اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے یا ظلم سے بچنے کے لیے دی جائے تو وہ رشوت کی تحریم میں شامل نہیں ہے۔" ختم شد
" النهاية " ( 2 / 226 )
اسی طرح علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے رشوت دی جائے یا اپنے آپ کو ظلم سے بچانے کے لیے تو وہ اس وعید میں شامل نہیں ہے۔" ختم شد
" معالم السنن " ( 5 / 207 )
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اپنے حق کو وصول کرنے کے لیے یا اپنے آپ سے ظلم ختم کرنے کے لیے کسی کو تحفہ دینا جائز ہے، سلف صالحین اور کبار اہل علم سے یہی منقول ہے۔"
" مجموع الفتاوى " ( 31 / 287 )
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (72268 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات