0 / 0

مسجد كسى مخصوص شخصيت سے منسوب كرنے كا حكم

سوال: 71301

معروف ہے كہ مساجد شخصيات كے ناموں سے منسوب كرنا پسند نہيں كيا جاتا اور اسے مكروہ شمار كيا جاتا ہے، اس سلسلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟

اور اگر ايسا كرنا صحيح ہے تو مسجد سيدہ زينب، مسجد حسين، مسجد احمد الرفاعى كے نام سے مسجد منسوب كرنے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

بعض علماء كے ہاں مساجد كے نام شخصيات كے نام پر ركھنا مكروہ ہيں جيسا كہ آپ نے كہا ہے، ليكن جمہور علماء كرام بغير كسى كراہت كے اسے جائز قرار ديتے ہيں.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” باب ھل يقال مسجد بنى فلان ” كيا يہ مسجد بنو فلاں كى ہے كہا جا سكتا ہے كے متعلق باب”

پھر ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث بيان كى ہے:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تضمير شدہ گھوڑوں كى ثنيۃ الوداع تك اور بغير تضمير گھوڑوں كى ثينۃ الوداع سے مسجد بنو زريق تك دور كا مقابلہ كروايا، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما دوڑ ميں حصہ لينے والوں شامل تھے ”

فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” اس حديث سے مسجد كے بانى يا اس ميں نماز ادا كرنے والے كى طرف مسجد منسوب كرنے كا جواز ثابت ہوتا ہے، اور اس كے ساتھ يہ بھى ملحق ہو سكتا ہے كہ اعمال صالحہ كرنے والے كى طرف اعمال كى اضافت كرنا بھى جائز ہے، مصنف ( امام بخارى رحمہ اللہ ) نے باب كا عنوان استفھام كے اس ليے ذكر كيا ہے تا كہ متنبہ كيا جا سكے كہ اس ميں احتمال ہو سكتا ہے، كيونكہ احتمال ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كا علم ہو، اور يہ اضافت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ہوئى ہو، اور يہ بھى احتمال ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ايسا ہوا ہو.

ليكن پہلا احتمال زيادہ ظاہر معلوم ہوتا ہے، اور جمہور علماء كرام اس كے جواز كے قائل ہيں، ابراہيم نخعى رحمہ اللہ نے اس كى مخالفت كى ہے، ابن ابى شيبہ نے ابراہيم نخعى سے روايت كيا ہے كہ وہ مسجد كو كسى كى جانب منسوب كرتے ہوئے مسجد بنو فلاں اور مصلى بنو فلاں كہنے كو ناپسند سمجھتے تھے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور يقينا مسجديں اللہ تعالى كى ہيں .

اس كا جواب يہ ہے كہ:

اس طرح كى اضافت اضافت تميز ہے نا كہ ملكيت كى اضافت.” انتہى

اور ابن العربى كا كہنا ہے:

” اگرچہ مساجد بطور شرف اور ملكيت اللہ تعالى كى ہيں، ليكن بطور تعريف اور پہچان انہيں كسى اور كى طرف منسوب كيا جا سكتا ہے، اور فلاں كى مسجد كہا جا سكتا ہے ” انتہى

ديكھيں: احكام القرآن ( 4 / 277 ).

اور ” المجموع ” ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” فلاں كى مسجد كہنے ميں كوئى حرج نہيں، بنو فلاں كى مسجد كہنا بطور تعريف اور پہچان ہے ” انتہى

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 208 ).

اس بنا پر كسى مسجد كو كسى معين شخصيت كى طرف منسوب كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ وہ اس كا بانى ہے، يا پھر وہاں نماز ادا كرتا ہے، اور اسى طرح صرف بطور تعريف اور پہچان كسى مسجد كا نام مسلمان علماء كرام كے نام سے منسوب كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.

ليكن كسى ايسے شخص كا نام كى طرف مسجد كو منسوب نہيں كرنا چاہيے جو بدعات ميں معروف ہو، كيونكہ ايسا كرنے ميں اس كى تعظيم اور عوام الناس كو اس طريقہ اور بدعت پر چلنے كى رغبت ہوتى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android