ميں كرنسى ايكسچينج (FOREX Marke t ) ميں سرمايہ كارى كے متعلق معلومات تلاش كر رہا ہوں، جيسا كہ ان ايام ميں كچھ حالت ہى ايسى ہے كہ لوگوں ميں يہ بات پھيل چكى ہے اور لوگ نفع حاصل كرنے كى خاطر يورو كى خريدارى ميں سرمايہ كارى كر رہے ہيں، ايك ايجنٹ اور دلال ہر وقت مجھ سے رابطہ كرتا ہے كہ ميں امريكى ڈالر اور يورو ميں سرمايہ كارى كروں، تو كيا كرنسى كى تجارت كرنى جائز ہے ؟
كرنسى ايكسچينج كا كاروبار
سوال: 72210
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كرنسى كى تجارت كرنى جائز ہے ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ مجلس عقد ميں ہى كرنسى اپنے قبضہ ميں كرنا ہوگى، تو اس طرح يورو ڈالر كے ساتھ فروخت اس شرط پر ہو سكتا ہے جب ايك دوسرے كو كرنسى اسى مجلس ميں ہى ايك دوسرے كے سپرد كر دى جائے.
ليكن اگر كرنسى ايك ہى ملك كى ہو مثلا ايك ڈالر كو دو ڈالر كے بدلے فروخت كيا جائے تو يہ جائز نہيں كيونكہ يہ ربا الفضل ( زيادہ سود ) كى قسم ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے جب كرنسى ايك ہو تو پھر مجلس ميں ميں ہى قبضہ ميں لينا اور برابر ہونا شرط ہے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سونا سونے كے بدلے، اور چاندى چاندى كے بدلے، اور گندم گندم كے بدلے، اور جو جو كے بدلے، اور كھجور كھجور كے بدلے، اور نمك نمك كے بدلے ايك دوسے كى مثل اور برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ نقد ہو، اور جب يہ اصناف مختلف ہو جائيں تو پھر جب نقد اور ہاتھوں ہاتھوں ہو تو تم جس طرح چاہو فروخت كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1587 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كے فتاوى جات ميں درج ہے:
كرنسى كى خريد و فروخت اس شرط پر جائز ہے كہ مجلس ميں قبضہ كيا جائے اور ہاتھوں ہاتھ اور نقد ہو، مثلا ليبى كرنسى كے بدلے ميں ڈالر نقد اور ہاتھوں ہاتھوں خريدے جائيں، اور ليبى كرنسى دينے والا ڈالر اور ڈالر فروخت كرنے والا ليبى كرنسى اسى مجلس ميں اپنى قبضہ ميں كر لے، يا مصرى كرنسى يا انگريزى كرنسى وغيرہ ليبى كرنسى يا كسى اور كرنسى كے بدلے ہاتھوں ہاتھ خريدے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر ادھار ہو تو پھر يہ جائز نہيں ہوگا، اور اسى طرح اگر مجلس عقد ميں كرنسى اپنے قبضہ ميں كى جائے تو بھى جائز نہيں، كيونكہ وہ حالت بن جائيگى جو بيان كى گئى ہے جو كہ سودى لين دين كى ايك قسم ہے، اس ليے جب كرنسى مختلف ہو تو مجلس ايك ہاتھ سے دو اور دوسرے سے ليكر اپنے قبضہ ميں كرنا ضرورى ہے.
ليكن اگر كرنسى ايك ہى قسم كى ہو تو اس ميں دو شرطوں كا ہونا ضرورى ہے:
كرنسى برابر برابر ہو، اور اسى مجلس ميں اپنے قبضہ ميں كى جائے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سونا سونے كے بدلے، اور چاندى چاندى كے بدلے، اور گندم گندم كے بدلے، اور جو جو كے بدلے، اور كھجور كھجور كے بدلے، اور نمك نمك كے بدلے ايك دوسے كى مثل اور برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ نقد ہو، اور جب يہ اصناف مختلف ہو جائيں تو پھر جب نقد اور ہاتھوں ہاتھوں ہو تو تم جس طرح چاہو فروخت كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1587 ).
اور سب كرنسى كا حكم يہى ہے جو بيان كيا گيا ہے، اگر وہ كرنسى مختلف ممالك كى ہو تو اس ميں تفاضل يعنى كمى اور زيادتى مجلس ميں ہى قبضہ كرنے كے ساتھ جائز ہے، اور اگر ايك ہى قسم كى كرنسى ہو مثلا ڈالر كے بدلے ڈالر، يا دينار كے بدلے دينار تو اسميں ايك ہى مجلس ميں قبضہ اور تماثل اور برابرى ہونا ضرورى ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 19 / 171 – 174 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب