0 / 0
5,40213/04/2013

خاوند بہت غصہ والا ہے اس نے تين طلاق دے ديں

سوال: 72439

ميرى شادى كو نو برس ہو چكے ہيں اور ميرا خاوند بہت غصہ كا مالك ہے اس كا جتنا بھى تصور كيا جائے كم ہے، جب غصہ ميں ہوتا ہے تو كچھ ہوش نہيں رہتا اور بلا مقصد تصرفات كرتا ہے، ميں اسے برى تو نہيں كرتى، ليكن يہ حقيقت ہے اور اللہ بھى اس كا گواہ ہے بہرحال ميرى مشكل يہ ہے كہ اس نے كئى بار طلاق كے الفاظ بولے ہيں اور ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا طلاق واقع ہوئى ہے يا نہيں:

پہلى حالت:

ہم ملك سے باہر تھے تو ايك بہت بڑى مشكل كھڑى ہو گئى اور خاوند مجھے كہنے لگا: ” جب ہم ملك واپس جائينگے تو تمہيں طلاق ہوگى ”

وہ كہتا ہے كہ يہ تو ايك دھمكى تھى اور مقصد خوفزدہ كرنا تھا، بہر حال ہم واپس آ گئے اور وہ اس موضوع كو بھول گيا ليكن ميں نہ بھولى بلكہ ميں نے ايك عالم دين سے دريافت كيا ت واس نے مجھے بتايا كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوئى، اس نے مجھے اس كى تفصيل بھى بتائى.

دوسرى حالت:

ہمارے درميان ايك اور بڑى مشكل كھڑى ہوگئى تو اس كے بعد خاوند نے مجھے زدكوب كيا اور گھر سے نكل گيا ميں نے تقريبا اسے موبائل پر نو ميسج كيے سب ميں سب و شتم اور اس كى تحقير كى گئى تھى، چنانچہ مجھے خاوند نے ميسج كيا ” تجھے طلاق ” يہ عصر كے وقت ہوا اور رات كو وہ واپس آيا تو ايسے تھا كہ جيسے كچھ ہوا ہى نہيں، ہم نے صلح كر لى اور اس كے متعلق بھى ميں نے ايك عالم دين سے دريافت كيا تو وہ مجھے كہنے لگے ميسج والى طلاق شمار نہيں ہوگى، يعنى وہ طلاق واقع نہيں ہوئى.

تيسرى حالت:

يہاں بھى ايك بڑى مشكل كھڑى ہوئى اور خاوند بہت شديد غصہ ميں آ گيا اس درج تك كہ اسے ہوش ہى نہ رہى كہ كيا كر رہا ہے اور مجھے طلاق دے دى، چنانچہ ميں اپنے ميكے چلى گئى، ليكن وہ عدالت ميں گيا اور قاضى نے فيصلہ كيا كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوئى تو خاندان والوں كے كہنے پر وہ مجھے واپس لےگيا.

ان سب حالات ميں اس كا مقصد طلاق نہ تھا، يہ علم ميں رہے كہ آخرى حالت تقريبا دو برس قبل تھى اس كے بعد تقريبا وہ ٹھنڈا ہو گيا اور يہ كلمات نہيں بولتا، ميں ہميشہ سوچتى ہوں كہ آيا ميں كہيں اس كے ساتھ حرام طريقہ پر تو نہيں رہ رہى كيا يہ طلاق شمار ہوگى يا نہيں ؟

مجھے علم نہيں آيا يہ شيطانى وسوسہ ہے يا كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملات ميں آسانى پيدا فرمائے اور آپ اور آپ كے خاوند كے حالات كى اصلاح كرے.

دوم:

آپ نے جن تين حالات كے متعلق دريافت كيا ہے اس كا جواب درج ذيل ہے:

پہلى حالت:

اس ميں خاوند نے كہا تھا: ” جب ہم ملك واپس جائيں گے تو تمہيں طلاق ” جب آپ ملك واپس آئے تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ يہ صرف اور خالص تعليق ہے يعنى اسے ملك واپس آنے كے ساتھ معلق كيا گيا ہے، اس سے كسى چيز سے روكنا يا كسى كام كى ترغيب نہيں اور نہ ہى كسى كى تصديق يا تكذيب ہے.

فرض كريں كہ اگر خاوند كہتا ہے: ميرا ارادہ تو يہ تھا كہ ميں اسے واپس آنے پر طلاق دے دونگا تو اس كى يہ بات قبول نہيں كى جائيگى؛ كيونكہ اس كا ” انت طالق ” كہنا يہ طلاق كے صريح الفاظ ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے اس ميں طلاق دينے كے وعدہ كى نيت و مراد قبول نہيں كى جائيگى.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” طلاق كى قسم يہ ہے كہ جس سے قسم اٹھانے والا كسى چي زكى ترغيب دلانا چاہتا ہو يا پھر كسى چيز سے روكنا چاہے يا سامعين اور مخاطبين ميں سے كسى كو تصديق يا تكذيب پر ابھارنا چاہتا ہو، تو يہ طلاق كے ساتھ قسم ہوگى اور يہ معلق كرنا ہے، اور اس كا مقصد كسى كام پر ابھارنا يا كسى كام سے منع كرنا، يا پھر كسى كى تكذيب يا كسى كى تصديق ت واسے طلاق كے ساتھ قسم كہا جائيگا، بخلاف محض تعليق كے، اسے قسم نہيں كہا جائيگا.

مثلا اگر كوئى شخص كہتا ہے جب سورج طلوع ہو تو اس كى بيوى كو طلاق.

يا كوئى كہے: جب رمضان شروع ہو تو اس كى بيوى كو طلاق.

اسے قسم نہيں كہا جائيگا، بلكہ يہ تو خالص تعليق اور خالص شرط ہے، جب بھى يہ شروط پورى ہو جائے طلاق واقع ہو جائيگى ” انتہى

ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 129 – 131 ).

اس طرح كے مسئلہ كا جواب سوال نمبر (43481 ) كے جواب ميں بھى گزر چكا ہے.

دوسرى حالت:

جس ميں اس نے آپ كوم وبائل پر ” تجھے طلاق ” كا ميسج كيا ہے اس ميں ميسج لكھتے وقت خاوند كى نيت كو ديكھا جائيگا اگر تو اس نے طلاق كا عزم كيا تھا تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے لكھتے وقت اس سے كچھ اور ارادہ كيا اور طلاق مراد نہ تھى مثلا ڈرانا دھمكانا اور خوفزدہ كرنا تو پھر طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ اس نے طلاق كى نيت نہيں كى تھى.

مزيد آپ سوال نمبر (72291 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.

تيسرى حالت:

اس ميں بيان ہوا ہے كہ غصہ اتنا شديد تھا كہ اسے علم ہى نہيں كہ وہ كيا كر رہا ہے اور آپ كو اس نے طلاق دے دى، پھر عدالت ميں گيا اور قاضى نے طلاق نہ ہونے كى فيصلہ كيا تو يہاں قاضى كا فيصلہ معتبر ہوگا.

كيونكہ غصہ كے كچھ ايسے حالات ہيں جن ميں طلاق واقع نہيں ہوتى، ہو سكتا ہے قاضى كے سامنے جو كچھ بيان كيا گيا اس كى روشنى ميں قاضى كے ليے يہ واضح ہوا ہو كہ غصہ اتنا شديد تھا كہ طلاق واقع ہونے ميں مانع ہے.

غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق كى تفصيل سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

ہمارى اس خاوند كو نصيحت ہے كہ وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرے، اور اپنى زبان كو طلاق كے الفاظ سے روك كر ركھے تا كہ خاندان كى تباہى كا سبب نہ بن جائے.

ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android