0 / 0

فٹ بال تيار كرنے كا ہنر اختيار كرنے كا حكم

سوال: 75644

فٹ بال بنانے كا ہنر اختيار كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہنر يا حرفہ كى تعريف الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ذيل كى گئى ہے:

الاحتراف لغت ميں الاكتساب، يا كمائى كے ليے كوئى ہنر اختيار كرنے كا نام ہے.

اور حرفہ ہر وہ كام اور ہنر ہے جس ميں انسان مشغول ہو اور اس كے ساتھ مشہور ہو جائے، كہا جاتا ہے فلان شخص كا ہنر يہ ہے، اس سے ان كى مراد اس كى عادت اور كمائى كا طريقہ ہوتا ہے، اور يہ اس معنى ميں صنعت و كام كے مترادف ہو گا.

اور رہا پيشہ تو پيشے اور ہنر ميں كوئى فرق نہيں؛ كيونكہ پيشے كا معنى اور لفظ ہنر كے مترادف ہى ہے، اور ان ميں سے ہر ايك سے مراد كسى كام كا ماہر ہونا مراد ہے.

اور لغوى فقھاء اس ميں موافق ہيں، اور وہ ہنر اختيار كرنے كو ہى حرفہ اور كمائى پر ہى اس كا اطلاق كرتے ہيں "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 69 ).

اور اس دور ميں اس كھيل ميں جو كچھ ہو رہا ہے اس سے غافل ہونے كى بنا پر كسى شخص كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ فٹ بال يا كوئى اور كھيل كھيلنے كے حكم ميں فتوى دے، چہ جائيكہ اسے بطور ہنر اختيار كيا جائے، آج اس ماحول نے ہر طرف سے گھير ركھا ہے، اس كھيل ميں ايك تو ستر پوشى نہيں، بلكہ ستر كو ننگا ركھا جاتا ہے، اور دوسرى چيز نمازيں ضائع كى جاتى ہيں، اور فتنہ و فساد اور شہوات كا پيش خيمہ ہے، اور اذيت و تكليف اور زخمى ہونے كے اختمالات ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اطاعت و فرمانبردارى سے غفلت بھى پائى جاتى ہے.

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس وقت فٹ بال كھيلنے ميں بہت سے قباحتيں اور خرابياں پائى جاتى ہيں، جن كا تقاضا ہے كہ اس كھيل سے منع كر ديا جائے، ان امور كا خلاصہ ذيل ميں پيش كيا جاتا ہے:

اول:

ہميں يہ بات صحيح طرح ثابت ہو چكى ہے كہ يہ كھيل نمازوں كے اوقات ميں كھيلا جاتا ہے، جس كے نتيجہ ميں كھلاڑيوں اور ناظرين كى نمازيں يا پھر نماز باجماعت ترك ہو جاتى ہے، يا پھر نماز وقت ميں ادا كرنے كى بجائے اس ميں تاخير ہو جاتى ہے.

اور جو كام اور عمل بھى نماز كى ادائيگى ميں حائل ہوتا ہو، يا نماز باجماعت فوت ہونے كا باعث بنے تو اس كے حرام ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، جب تك كہ اسميں كوئى شرعى عذر نہ ہو.

دوم:

اس كھيل ميں لوگوں كے گروہ بن جاتے ہيں جس كى بنا پر ان ميں جھگڑا اور دھنگا و فساد، يا پھر فتنہ اور بغض و كينہ اور حسد پيدا ہوتا ہے اور يہ نتائج تو اس چيز كے برعكس ہيں جس كى اسلام دعوت ديتا ہے، كہ ايك دوسرے كو معاف اور درگزر كيا جائے، اور آپ ميں محبت و الفت اور بھائى چارہ كى فضا قائم كى جائے، اور لوگوں كے دلوں اور ضمير بغض و حسد اور كينہ اور نفرت سے پاك صاف كيے جائيں.

سوم:

اس كھيل ميں كھلاڑيوں ميں تصادم اور ايك دوسرے سے بال چھيننے ميں دھكم پيل كى نتيجہ ميں كھلاڑيوں كے بدن كو خطرہ اور نقصان كا انديشہ ہے، اور جب كھلاڑى اپنے كھيل كا اختتام كرتے ہيں تو ان ميں سے بعض تو ميدان ميں ہى بےہوش ہو كر گر پڑتے ہيں، يا پھر اس كى ٹانگ يا بازو كى ہڈى ٹوٹ چكى ہوتى ہے، اس كى اس سے بڑى دليل اور كيا ہو سكتى ہے كہ كھيل كے وقت ان كے قريب ايمبولس گاڑى اور فسٹ ايڈ ضرور ہونى چاہيے.

چہارم:

وزرش والى كھيليں مباح اور جائز ہونے كا مقصد اور غرض يہ ہوتى ہے كہ بدن ميں چستى اور پھرتى پيدا ہو اور قتال كى ٹريننگ اور دائمى بيماريوں كا قلع قمع ہو سكے، ليكن اب فٹ بال كھيلنے كا مقصد ان امور سے كوئى ايك بھى نہيں ہے، ان خرابيوں جن كا بيان اوپر ہو چكا ہے كے ساتھ ساتھ باطل طريقہ مال كو خرچ كرنا بھى شامل ہے، اور اس پر مستزاد يہ كہ كھلاڑيوں كى جان اور جسم خطرہ ميں پڑے ہوتے ہيں، اور كھلاڑيوں اور ناظرين اور تماشائيوں كے دلوں ميں حسد و بغص اور كينہ جيسى بيمارياں بھى جنم ليتى ہيں، اور بعض اوقات تو معاملہ اس حد تك بڑھ جاتا ہے كہ كچھ تماشائى بعض كھلاڑيوں پر زيادتى اور قتل تك بھى كرتے ہيں، جيسا كہ كچھ ماہ قبل ايك فٹ بال مقابلہ ميں ہوا بھى ہے، اس كھيل كى ممانعت كے ليے صرف يہى ايك چيز كافى ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے "

فتاوى ابن ابراہيم ( 8 / 116 – 117 ).

ليكن رہا يہ كھيل اس ليے كھيلا جائے تا كہ جسم قوى اور چست ہو يا پھر كسى بيمارى كے علاج كے ليے كھيلا جائے، اور اس ميں كوئى بھى ممنوعہ چيز نہ پائى جائے تو پھر يہ جائز ہو گا.

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس طرح كے كھيلوں ميں اصل تو جواز ہى ہے، جب يہ برى اور اس كا كوئى ہدف ہو، جيسا كہ ابن قيم رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " الفروسيۃ " ميں اس كى طرف اشارہ كيا ہے، اور شيخ تقى الدين ابن تيميہ رحمہ للہ وغيرہ نے اسے بيان كيا ہے.

اور اگر اس ميں جھاد كى ٹريننگ، اور آگے بڑھ كر حملہ كر كے پلٹنے كى ٹريننگ ہو، اور دائمى بماريوں كا قلع قمع كرنے، اور روح كو معنوى تقويت دينے كے ليے ہو تو اس وقت يہ مستحبات ميں شامل ہو گا جب كھيلنے والا اپنى نيت صحيح كريگا، اور سب كے ليے شرط يہ ہے كہ نہ تو اس ميں جسم كو ضرر اور نقصان ہو، اور نہ ہى جان كو خطرہ ہو، اور نہ ہى اس كے نتيجہ ميں كھلاڑيوں كے مابين كسى بھى قسم كا بغض و حسد اور كينہ پيدا ہو، اور جو اس سے بھى اہم معاملہ ہو اس سے وہ مشغول نہ ہو جائے، اور نہ ہى يہ كھيل اسے اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روكے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى ابن ابراہيم ( 8 / 118 ).

اور رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اور اس مخصوص اور منظم طريقہ پر فٹ بال كھيلنا جو كھلاڑيوں كو دو فريق بنا دے، اور اس كا معاوضہ ركھا جائے، يا معاوضہ نہ ركھا جائے ايسا كھيل نہيں كھيلنا چاہيے، كيونكہ يہ اللہ تعالى كے ذكر سے روكنے، اور نماز سے روكنے پر مشتمل ہے.

اور اس كے ساتھ ساتھ باطل طريقہ سے مال كھانے پر بھى مشتمل ہو سكتا ہے، تو اس طرح يہ جوا اور قمار بازى كے ساتھ مل جائيگا جس كى بنا پر يہ كھيل بعض وجوہات كى بنا پر شطرنج سے مشابہ ہوگا.

ليكن ايك يا دو شخص فٹ بال كو لڑھكاتے پھريں اور اس سے كھليں جو غير منظم ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ كسى ممنوعہ كام پر مشتمل نہيں. واللہ اعلم " انتہى

ديكھيں: فتاوى ابن ابراہيم ( 8 / 119 ).

اور سوال نمبر ( 22305 ) كے جواب ميں فٹ بال كھيلنے كے جواز كى شروط كا بيان ہو چكا ہے جس ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ:

تيسرى شرط:

كھلاڑى كا اكثر وقت اس ميں مستغرق نہ ہو جائے، چہ جائيكہ وہ سارا وقت ہى كھيلتا رہے، يا وہ لوگوں ميں معروف ہى اس كھيل كے ساتھ ہو، يا اس كى ملازمت اور اس كا كام ہى يہ ہو، كيونكہ خدشہ ہے كہ ايسا كرنے والے كھلاڑى پر اللہ تعالى كا درج ذيل فرمان صادق نہ آ جائے:

وہ لوگ جنہوں نے اپنے دين كو كھيل تماشا بنا ليا اور انہيں دينا كى زندگى نے دھوكہ ميں ڈال ديا تو آج ہم بھى انہيں بھلا دينگے . انتہى.

اس سے يہ واضح ہوا كہ اس وقت موجود فٹ بال كا ہنر اختيار كرنا حرام ہے، كيونكہ اس ميں بہت سے شرعى ممنوعات پائے جاتے ہيں، اگرچہ اصل ميں فٹ بال كھيلنا مباح ہے.

اور خاص كر جب ہميں يہ معلوم ہے كہ اس ہنر اور مہارت كے لوازمات ميں كفريہ ممالك كا سفر كرنا شامل ہے، تا كہ وہاں عالمى كاؤنٹيوں ميں كھيلا جا سكے، اور كسى پر بھى يہ مخفى نہيں كہ ان كفريہ ممالك ميں كيا كچھ فتنہ و فساد اور خرابياں اور فحاشى پائى اتى ہے، اور اسى طرح كھلاڑيوں كو اپنى شہرت اور مال و دولت كى بنا پر عورتوں كے فتنہ و فساد كا بھى سامنا كرنا پڑتا ہے.

يہاں ايك تنبيہ يہ بھى ہے كہ كفار ممالك ميں رہنا اور بود و باش اختيار كرنا حرام ہے، اور بغير معينہ شروط اور ضرورت كے وہاں رہنا جائز نہيں، اس كا بيان سوال نمبر ( 27211 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android