میرا خاوند اپنے کاروبار کی وجہ سے اکثر سفر پر رہتا ہے، اور لمبے لمبے عرصے تک گھر سے دورہوتا ہے، اس نے شادی کے ابتدائی ایام سے ہی میرے ساتھ ازدواجی اور ذہنی طور پراچھا سلوک نہیں کیا، پھر میرے اعتراض کے باوجود اپنے انیس سالہ بھائی کو اپنے ساتھ رہنے کیلئے بلالیا، جسکی وجہ سے کبھی کبھار ہم دونوں ہی اکیلے گھر میں رہ جاتے تھے، اور پھر ہمارے درمیان تھوڑی سی غیر مناسب باتیں بھی ہوئیں، لیکن میں نے اس سے توبہ کرلی، تو کیا اس گناہ میں میرا خاوند بھی شریک ہوگا؟ اس لئے کہ اس کا اصل سبب تو وہی بنا ہے۔
پھر میرے خاوند نے مجھ پر نفسیاتی اور جسمانی دباؤ ڈال کر مجھ سے ان باتوں کے بارے میں پوچھنا چاہا، اور اپنے اس کام کیلئے دلیل یہ دی کہ میرے حقوق میں خیانت کے بارے میں جاننے کا مجھے حق حاصل ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ : کیا میرے خاوند کومیرے ماضی کے بارے میں کھوج لگانے کا حق حاصل ہے؟حالانکہ اسکے پاس اس بارے میں کوئی دلیل تو کیا کوئی قرینہ بھی نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے میرے تعلقات ابھی بھی اُس کے ساتھ جاری ہیں۔ مجھے وضاحت کردیں، اللہ آپکو جزائے خیر سے نوازے۔
اپنے دیور کے ساتھ غلط کاری میں مبتلا ہوگئی
سوال: 7650
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
إنا لله وإنا إليه راجعون …
آپ کے خاوند سے وہی غلطی ہوئی ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار بھی کیا تھا، آپ نے غیرمحرم مَردوں کو خواتین کے پاس جانے سے منع کیا، تو آپ سے کہا گیا:حَمو-خاوند کا بھائی اور خاوند کے رشتہ دار- کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟ تو آپ نے فرمایا: (دیور تو موت ہے)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: " دیور تو موت ہے" کا یہ مطلب ہے کہ دیور سے متعلق خطرات دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ وہ خاتون کے پاس جا بھی سکتا ہے، اور علیحدگی بھی اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ دیور اگر اپنی بھابھی کے گھر میں جائے تو لوگ اس کو بُرا نہیں سمجھتے ۔
دیور وں کے اپنی بھابھیوں کے پاس جانے کی وجہ سے ہم نے کتنے ہی ایسے دل خراش واقعات سنے ہیں ، حتیٰ کہ کچھ تو زنا تک پہنچ گئے اور حمل بھی ہوگیا۔ اللہ تعالی ہی سے بچنے کی دعا ہے۔
اور آپکے خاوند کیلئے ماضی کے بارے میں تفتیش کرنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ اس پر ضروری ہے کہ ماضی پر اسی طرح پردہ رہنے دے جیسے اللہ نے پردہ ڈال کر رکھا ہے، اور خاص طور پر کہ آپ توبہ کرچکی ہو، اس لئے کہ کھوج لگانے کی وجہ سے انکا دل کبھی بھی آپکے بارے میں صاف نہیں ہوگا، اور آپ سے صادر ہونے والا ہر کام اسکی نگاہ میں اسی غلط زمرے میں شامل ہوگا۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " گندگی سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے لہذا ان سے بچ کر رہو، اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو اسے چھپائے، اور اللہ تعالی سے توبہ کرلے، کیونکہ جس نے اپنے کرتوت ہمیں بیان کئے تو ہم اس پر کتاب اللہ کی رو سے احکام جاری کرینگے"
حاكم نے " المستدرك " ( 4 / 425 ) اوربیہقی نے ( 8 / 330 ) اسے روایت کیا ہے اورألبانی نے صحيح الجامع ( 149 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
"گندگی" سے مراد گناہ ہیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے، اُس نے پکار کر کہا: یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ دوسری طرف پھیرلیا، پھر وہ آپ کے سامنے دوسری طرف سے آیا اور کہا: کہ میں نے زنا کیا ہے، آپ نے اس سے منہ پھیر لیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تیسری مرتبہ آیا اور عرض کیا میں نے زنا کیا ہے، تو آپ نے پھر اعراض فرمایا، تو پھر چوتھی مرتبہ آیا اور عرض کیا میں نے زنا کیا ہے، جب وہ اپنے آپ پر چار مرتبہ شہادت دے چکا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: کیا تو پاگل ہوگیا ہے!؟ اس نے کہا: نہیں یا رسول اللہ!آپ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے! اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا اسے لے جا کر سنگسار کردو۔
بخاری ( 6430 ) اورمسلم ( 1691 ) نے اسے روایت کیا ہے، اور بعض روایات میں الفاظ ہیں کہ اسلم قبیلے سے ایک آدمی ابو بکر کے پاس آیا اور کہا: میں نے زنا کیا ہے، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ سے توبہ کرو، اور اگر اللہ نے پردہ ڈالا ہے تو اس پر پردہ ہی رہنے دو، وہ آدمی پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھی آیا۔۔۔ مزید تفصیل کیلئے فتح الباری دیکھیں: ( 12/125 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ، جس شخص سے اس قسم کا گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ سے توبہ کرلے، اور اپنی جان پر پردہ رہنے دے، اور کسی کو اس بارے میں نہ بتلائے ، جیسے کہ ابو بکر اور عمر نے ماعز کو اشارہ کیا تھا"
اور جسے اس قسم کے معاملے کا پتہ چل جائے تو وہ بھی پردہ پوشی سے کام لے، جیسے کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، اور اسے معاشرے میں رسوا مت کرے، اور نہ قاضی تک معاملہ اٹھائے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی واقعہ میں فرمایا: (اگر تم پردہ پوشی کر لیتے تو تمہارے لئے بہتر تھا) اور اسی جزم کے ساتھ شافعی رضی اللہ عنہ اسکے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے ، اور اللہ تعالی اس پر پردہ ڈال دے تو وہ اپنے گناہ پر پردہ رہنے دے، اور اللہ تعالی سے توبہ کرلے، اسکی دلیل ابو بکر و عمر کے ماعز کے ساتھ واقعہ میں ہے۔
اس واقعہ میں یہ بھی ہے کہ ، جس شخص سے کوئی گناہ ہوگیا تو وہ جلد از جلد اس گناہ سے توبہ کرلے، اور کسی کو بھی اس گناہ کے بارے میں مت بتلائے، اور اگر اتفاق سے کسی کو اس نے بتلا ہی دیا تو اُسے چاہئے کہ وہ گناہ کرنے والے کو توبہ کی نصیحت کرے، اور لوگوں کو مت بتلائے، جیسے ماعز کے ساتھ ابو بکر اور عمر نے کیا۔
" فتح الباری " ( 12 / 124 ، 125 )
مندرجہ بالا بیان کے بعد:
کسی بھی خاوند کیلئے اپنی بیوی کے ماضی کے ان گناہوں کے بارے میں کھوج لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہےجن سے وہ توبہ کر چکی ہے، اور نہ ہی عورت کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے خاوند کو ماضی کے بارے میں بتلائے جن سے وہ توبہ کرچکی ہے، اللہ نے جن گناہوں پر پردہ ڈالا ہے ان پر پردہ ہی رہنے دے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب