پہلے تو ميں اس طرح كا سوال كرنے ميں معذرت چاہتا ہوں، ليكن اپنى نيت ميں شك كى مجال نہ چھوڑنے كے ليے ميں يہ كہتا ہوں: ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں، اور ميں مكمل طور پر راضى ہوں كہ اللہ تعالى ميرا رب ہے اور اسلام دين ہے، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم رسول ہيں.
ميں سنت يعنى حديث كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں كيونكہ ايك ہى حديث كى كئى ايك روايات پائى جاتى ہيں مثلا صحيح بخارى ميں ہم ايك حديث پاتے ہيں جو اسلوب ميں مسلم كى روايت مختلف ہے، لہذا سنت نبويہ قرآن عظيم كى طرح كيوں نہيں ؟
اور سنت مطہرہ اور قرآن عظيم ميں كيا فرق ہے، آيا سنت نبويہ شريف وحى ميں شامل ہوتى ہے جو رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل ہوتى تھى، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقوال اور افعال ميں سے ؟ اور كيا يہ خصائص نبوت ميں سے ہے يا كيا ؟
صحيح سنت نبويہ اللہ كى جانب سے وحى ہے
سوال: 77243
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہر مسلمان كے دل اور عقل ميں يہ بات بيٹھ جانى چاہيے كہ سنت ـ وہ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے افعال يا اقوال يا تقرير كى طرف منسوب كى جائے ـ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے ايك قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى دوسرى قسم قرآن كريم ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے النجم ( 3 – 4 ).
مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.
خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 ) ترمذى نے اسے غريب من ھذا الوجہ كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " السلسۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2870 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ہمارے دين حنيف سے سلف صالحين رحمہ اللہ تو يہى سمجھے تھے.
حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے "
ديكھيں: الكفايۃ للخطيب ( 12 ) اسے دارمى نے سنن دارمى ( 588 ) اور خطيب نے الكفايۃ ( 12 ) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 13 / 291 ) ميں بيہقى كى طرف منسوب كيا ہے كہ انہوں نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
سنت كى اہميت اس سے بھى واضح ہوتى ہے كہ سنت نبويہ كتاب اللہ كا بيان اور اس كى شرح كرنے والى ہے، اور پھر جو احكام كتاب اللہ ميں ہيں ان سے كچھ احكام زيادہ بھى كرتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں النحل ( 44 ).
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس كا بيان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے دو قسموں ميں ہے:
پہلى قسم:
كتاب اللہ ميں جو مجمل ہے اس كا بيان مثلا نماز پنجگانہ اور اس كے اوقات، اور نماز كے سجود و ركوع اور باقى سارے احكام.
دوسرى قسم:
كتاب اللہ ميں موجود حكم سے زيادہ حكم، مثلا پھوپھى كى اور خالہ كى موجودگى ميں اس كى بھتيجى اور بھانجى سے نكاح كرنا يعنى دونوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: جامع بيان العلم و فضلہ ( 2 / 190 ).
دوم:
جب سنت نبويہ وحى كى اقسام ميں دوسرى قسم ہے تو پھر اللہ كى جانب سے اس كى حفاظت بھى ضرورى اور لازم ہو گى تا كہ وہ اس سے دين ميں تحريف يا نقص يا ضائع ہونے سے محفوظ ركھے.
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں الحجر ( 9 ).
اور ارشاد ربانى ہے:
كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے الانبياء ( 45 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے " انتہى
ديكھيں: الاحكام ( 1 / 95 ).
سوم:
جب يہ ثابت ہو گيا كہ سنت نبويہ وحى الہى ہے تو يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا چاہيے كہ اس سنت اور حديث ميں ايك فرق ہے، اور وہ فرق يہ ہے كہ قرآن مجيد تو اللہ كى كلام يعنى كلام اللہ ہے، اسے اپنے لفظوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف نازل فرمايا، ليكن سنت بعض اوقات كلام اللہ نہيں ہو سكتى، بلكہ وہ صرف وحى ميں شامل ہو گى، پھر يہ لازم نہيں كہ آپ اس كے الفاظ كى ادائيگى كريں، بلكہ معنى اور مضمون كے اعتبار سے ادا ہو سكتى ہے.
اس فرق كو سمجھ جانے سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ سنت نبويہ كے نقل ميں معتبر معنى اور مضمون ہے، نہ كہ بذاتہ وہ الفاظ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بولے، شريعت اسلاميہ تو اللہ كى حفاظت سے محفوظ ہے، اللہ تعالى نے قرآن مجيد كى مكمل حفاظت فرمائى، اور سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اجمالى طور پر اور اس كے معانى كى حفاظت كى، اور سنت نبويہ نے جو كتاب اللہ كى وضاحت و تبيين كى اسے محفوظ ركھا، نا كہ اس كے الفاظ و حروف كى.
اس كے ساتھ ساتھ امت كے علماء نے كئى صدياں گزرنے كے باوجود شريعت اور سنت نبويہ كى حفاظت كا ذمہ اٹھائے ركھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ اسى طرح ہم تك نقل كيے جو آپ نے فرمائے تھے، اور اس ميں سے غلط اور صحيح اور حق و باطل ميں امتياز كيا.
اور عزيز سائل جو ايك ہى حديث كى كئى روايات ديكھتا ہے ا سكا معنى يہ نہيں كہ سنت نبويہ كے نقل كرنے اور اس كى حفاظت ميں كوئى كوتاہى ہے، بلكہ كئى ايك اسباب كى بنا پر روايات مختلف ہيں جب يہ ظاہر ہو جائيں تو جواب واضح ہو جائيگا.
تو يہ كہا جاتا ہے:
چہارم:
روايات كئى ايك ہونے كے كئى اسباب ہيں:
1 – حادثہ اور واقعہ كئى بار ہوا ہو:
ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب معنى ايك ہى ہو تو روايات كا مختلف ہونا حديث ميں عيب نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ جب آپ كوئى حديث بيان كرتے ت واسے تين بار دھراتے، اس طرح ہر انسان اپنى سماعت كے مطابق نقل كرتا، جب معنى ايك ہو تو روايات ميں يہ اختلاف اس مين شامل نہيں ہوتا جو حديث كو كمزور كر دے " انتہى
ديكھيں: الاحكام ( 1 / 134 ).
2 – روايت بالمعنى:
كسى ايك حديث كى كئى روايات ہونے كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ مہم تو حديث نقل كرنا اور اس كے مضون اور اس حديث ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى ادائيگى ہے، رہے حديث كے الفاظ تو يہ قرآن مجيد كى طرح تعبدى نہيں.
اس كى مثال درج ذيل حديث ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" انما الاعمال بالنيات " اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے.
يہ حديث " العمل بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى مروى ہے، اور " انما الاعمال بالنيات " كے الفاظ سے بھى، اور " الاعمال بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى، اس تعدد روايت كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ حديث كا مخرج ايك ہى ہے اور وہ يحي بن سعيد عن محمد بن ابراہيم التيمى عن علقمۃ عن عمر رضى اللہ تعالى عنہ ہے، ديكھيں كہ ان سب جملوں سے جو معنى سمجھ ميں آتا ہے وہ ايك ہى ہے، تو پھر تعدد روايات يعنى حديث كا كئى ايك روايات سے مروى ہونے ميں كيا ضرر ہے ؟!
اور علماء كرام اپنا زيادہ كرنے كے ليے كہ راوى نے حديث كا معنى صحيح نقل ہے روايت بالمعنى صرف اس راوى كى قبول كرتے تھے جو عربى زبان كا ماہر اور علم ركھتا ہو، پھر علماء كرام اس راوى كى روايت كا دوسرے ثقات راويوں كى روايت سے مقارنہ اور موازنہ كرتے اس طرح ان كے ليے نقل ميں جو غلطى ہوتى وہ واضح ہو جاتى، اس كى مثاليں بہت ہيں ليكن يہ اس كے بيان كرنے كا مقام نہيں.
3 – راوى كا حديث كو مختصر كر كے روايت كرنا:
يعنى راوى كو پورى اور مكمل حديث حفظ ہے ليكن وہ فى الحال وہ اس كا جزء اور حصہ ہى نقل كرنے پر اكتفا كرتا ہے، اور كسى دوسرى حالت ميں مكمل حديث بيان كر ديتا ہے، اس كى مثال درج ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ظہر كى نماز ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے بھولنے كے قصہ كے متعلق ذكر كردہ روايات ميں سارى روايات ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے مروى ہيں اور قصہ بھى ايك ہے، اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ روايات كا اختلاف راوى كا روايت اختصار كے ساتھ بيان كرنا ہے.
ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ) اور ( 715 ) اور ( 1229 ).
4 – غلطى و خطا:
كسى راوى سے غلطى اور خطا واقع ہو جاتى ہے تو وہ حديث كو اس كے علاوہ روايت كر ديتا جس طرح دوسرے راوى روايت كرتے ہيں، اس غلطى و خطا كى پہچان دوسرى روايات كے ساتھ مقارنہ و موازنہ كرنے سے ہو جاتى ہے، اور كتب سنہ اور كتب تخريج ميں اہل علم نے يہى كام كيا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ليكن اللہ تعالى نے اس امت كے ليے جو نازل كيا ہے اس كى حفاظت فرمائى ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں الحجر ( 9 ).
چنانچہ قرآن كى تفسير يا نقل حديث يا اس كى شرح ميں جو غلط ہے اللہ تعالى امت ميں ايسے شخص پيدا فرمائيگا جو اس غلطى كو صحيح كرينگے، اور غلطى كرنے والے كى غلطى اور جھوٹ بھولنے والے كے كذب كى دليل بيان كرينگے، كيونكہ يہ امت كسى گمراہى و ضلالت پر جمع نہيں ہو سكتى، اور ہر وقت اس ميں حق پر ايك گروہ موجود رہيگا حتى كہ قيامت قائم ہو جائے، كيونكہ امتوں ميں سے يہ سب سے آخرى امت ہے ان كے نبى كے بعد كوئى اور نبى نہيں، اور ان كى كتاب كے بعد كوئى اور كتاب نہيں.
پہلى امتوں نے جب اپنے دين ميں تبديلى و تغير كر ليا تو اللہ تعالى ان ميں نبى مبعوث فرما ديا كرتا تھا جو انہيں حكم ديتا اور برائى سے منع كرتا، ليكن محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد كوئى نبى نہيں، اور پھر اللہ تعالى نے جو ذكر نازل كيا ہے اسے محفوظ ركھنے كى ضمانت لے ركھى ہے " انتہى
ديكھيں: الجواب الصحيح ( 3 / 39 ).
سنت نبويہ اس وجہ پر جو ہم پہلے بيان كر چكے ہيں كہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے وحى ہے: يہ لوگوں كے ليے نازل كردہ كتاب كى وضاحت و تبيين كرتى ہے، اور انہيں ان كے دين كے ضرورى احكام سكھاتى ہے، اگرچہ اس كى تفصيل يا اس كى اصل كتاب اللہ ميں آئى ہے، ہم يہ كہينگے:
اس طريق اور وجہ سے سنت نبويہ نبوت كے خصائص ميں شامل ہوتى ہے؛ اور يہ كام اور وظيفہ نبوت كے وضائف ميں سے ہے، اور اب تك لوگ سنت كو اس وجہ اور طريق سے ہى ديكھتے ہيں، جو كتب ميں موجود ہے، يا بعض الفاظ كے اختلاف كے ساتھ زبانى روايات ميں پائى جاتى ہے، يا حديث كے كئى ايك سياقات ميں، اور اس ميں ايسى كوئى چيز نہيں جو اس كے مقام و مرتبہ ميں شك پيدا كرتى ہو، يا اس كى حفاظت ميں كوئى قلق و پريشانى كا باعث ہو، يا اس كى حجيت ميں تردد و اختلاف پيدا كرے، اور لوگوں كو اس كى ضرورت بھى ہے كيونكہ لوگ كثرت سے علمى و عملى مسائل ميں اختلاف و تردد كا شكار ہو چكے ہيں.
علامہ شيخ عبد الغنى عبد الخالق رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہم غزالى اور آمدى اور بزدوى اور ان كے طريقوں كے سب متبعين جو اصولى مؤلف ہيں ان كى كتب اس كى تصريح نہيں پاتے اور نہ ہى كوئى اس مسئلہ ميں اختلاف كا اشارہ ہى پاتے ہيں، اور يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے سے قبل سابقہ لوگوں كى كتابيں اور مذہب كا پيچھا كيا، اور ان كے اختلافات كو كا تتبع كيا حتى كہ شاذ قسم كے اختلافات كا بھى، اور اس كے رد كا بہت زيادہ خيال كيا "
پھر انہوں نے " مسلّم " كے مؤلف سے كتاب و سنت اور اجماع و قياس كى حجيت سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ: يہ علم كلام ميں سے ہے، ليكن دو اصولوں اجماع اور قياس كى حجيت پر كلام كى ہے، كيونكہ بےوقوف قسم كے خوارج اور رافضيوں ( اللہ انہيں ذليل كرے ) نے ان دونوں سے ہى اكثر دليل لى ہے اور وہ ان ميں مشغول ہوئے ہيں.
رہى كتاب و سنت كى حجيت تو دين كے سب آئمہ اس كى حجيت پر متفق ہيں اس كے ذكر كرنے كى كوئى ضرورت نہيں " انتہى
ديكھيں: حجيت السنۃ ( 248 – 249 ).
اور مزيد آپ سوال نمبر ( 93111 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات