0 / 0
4,94111/05/2005

تجارتي سيل ( ريٹ كرنے) لگانے كا حكم

سوال: 7842

بعض دوكانيں اور سپر ماركيٹيں سامان كا ريٹ كم كرتےہيں مثلا تجارتي اعلان اور گاہك بنانے كےليے، تو كيا ايك دوكاندار ہونے كےناطے ميرے ليے بھي ايسا كرنا جائز ہے؟ اور ريٹ كي كمي كےدوران خريداري كا كيا حكم ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اكثر اہل علم سامان اور دوسري سروس اس كي مثل ريٹ سے كم ميں فروخت كرنے كوجائز قرار ديتےہيں.

امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ كا مسلك يہي ہےاور مالكيہ ميں سے ابن رشد اور شافعيہ اور حنابلہ اور ظاہريہ ميں سے ابن حزم رحمہم اللہ كا بھي يہي قول ہے، اوراس قول كےدلائل مندرجہ ذيل ہيں:

اول:

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ريٹ كي تحديد اور مقرر كرنے كو ظلم كي ايك نوع اور قسم شمار كياجس سے ركنا ضروري ہے.

رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( بلاشبہ اللہ تعالي ہي روزي كم كرنے اور زيادہ كرنے والا اور ريٹ مقرر كرنے والا ہے، ميں اميد كرتا ہوں كہ ميں اللہ تعالي سے ملوں تو مجھ سے كوئي بھي اپنےحق كا مطالبہ نہ كرے جوميں نےمال اور خون ميں اس پر كيا ہو ) مسند احمد ( 3 / 165 ) ( 286 ) جامع الترمذي كتاب البيوع حديث نمبر ( 1314 ) ( 3 / 597 ) ابن ماجہ حديث نمبر ( 2200 ) ( 2 / 741 ) سب نے انس رضي اللہ تعالي عنہ سے روايت كيا ہے.

دوم:

شريعت اسلاميہ نے خريدوفروخت اور سب معاملات ميں نرمي اور سہولت پر ابھارا ہے.

جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالي عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( اللہ تعالي اس شخص پر رحم كرے جس نے خريدتے وقت بھي اور فروخت كرتے وقت بھي نرمي كي اور فيصلہ كرتےوقت بھي نرمي كي ) . صحيح بخاري حديث نمبر ( 2076 ) ( 2/ 81 ).

اور اس ميں كوئي شك نہيں كہ ريٹ سے كم پر اشياء فروخت كرنا بھي اس ميں داخل ہے.

ابن رشد رحمہ اللہ تعالي اس شخص كےبارہ ميں جو ماركيٹ والوں كے ريٹ سے كم ريٹ پر سودا فروخت كرتا كہتےہيں:

( لوگوں كي وجہ سے اس كا شكر ادا كيا جائےگا اور جب اس نے اللہ تعالي كي رضا اور خوشنودي كےليے ايسا كيا تواسے اس فعل كا اجروثواب بھي حاصل ہوگا ) ديكھيں: البيان والتحصيل ( 9 / 306 ) .

سوم:

يقينا سامان كي قيمت اور دوسري خدمات، اوراس كا ريٹ اس كے مالكوں كا حق ہے، لھذا ان دونوں ميں ان سے يہ روكا نہيں جاسكتا، اور نہ ہي اسے مقرر كرنےميں ان كے آڑے آيا جاسكتا ہے.

ديكھيں: تبين الحقائق ( 6 / 28 ) المغني ( 6 / 312 ) .

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ سامان اور دوسري خدمات اس كي مثل كےريٹ سے كم ريٹ پر فروخت كرنا جائز نہيں، مالكيہ كا يہي مسلك ہے.

اور دلائل قوي ہونے كي بنا پر راجح قول يہي ہے كہ ماركيٹ كے ريٹ سے كم ريٹ پر فروخت كرنا جائز ہے، اور اس ليے كہ خريدوفروخت اور معاوضہ رضامندي پر مبني ہے.

جيسا كہ اللہ تعالي كا فرمان ہے:

مگر يہ كہ تمہاري آپس كي رضامندي سے خريدوفرخت ہوالنساء ( 29 ) .

لھذا جب فروخت كرنے والا اپني چيز كا كوئي اور خدمت عام ريٹ سے كم قيمت اور ريٹ پر دينے پر رضامند ہے، تواسے اس سے منع كرنے كي كوئي وجہ نظر نہيں آتي، جيسا كہ بيع ميں اصل حلت ہے كيونكہ فرمان باري تعالي ہے:

اور اللہ تعالي نے خريدوفروخت حلال كي ہے البقرۃ ( 275 ).

تواس سے بغير بااعتماد دليل كے منع نہيں كيا جاسكتا، ليكن اگر حكمران ديكھتا ہے كہ مثلي ريٹ كےبغير لوگوں كي مصلحت پوري نہيں ہوتي تو پھر اس سے منع كرسكتا ہےكيونكہ اس كےترك كرنے ميں كئي ايك مفاسد ہيں، تواس وقت يہ جائز ہوگا اوراس ميں كوئي حرج نہيں.

كيونكہ لوگوں كےمعاش اور ان كےمعاملات كي اصلاح مقصود ہے، لھذا اگر يہ اصلاح انہيں عام ريٹ سے كم ريٹ پر فروخت كرنے سے منع كرنے كے بغير نہيں ہوتي تو يہ جائز ہوگا، بلكہ بعض اوقات تو واجب ہوگا, واللہ تعالي اعلم .

ماخذ

ديكھيں: كتاب الحوافز التجاريۃ التسويقيۃ تاليف: خالد بن عبداللہ المصلح صفحہ نمبر ( 171 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android