ميرے والد نے اپنے دفاع ميں كسى دوسرے شخص كو قتل كيا ديا تھا اور اب وہ بھى فوت ہو چكے ہيں، مقتول كے ورثاء نے ديت لينا قبول كر لى تھى، تو اس كا كفارہ كيا ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرے والد نے نہ تو دو ماہ كے روزے ركھے ہيں، اور نہ ہى غلام آزاد كيا، اور نہ مسكينوں كو كھانا كھلايا، اس كى اولاد موجود ہے ان كے ذمہ كيا واجب آتا ہے ؟
اپنا دفاع كرتے ہوئے كسى دوسرے كو قتل كرنے ميں ديت يا كفارہ كى ادائيگى
سوال: 78978
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسلمان شخص پر اپنا اور اہل و عيال ہر اس شخص سے دفاع كرنا واجب اور ضرورى ہے، جو ان پر ظلم و زيادتى كرنا چاہيے، اور اسے آسان ترين طرح سے دفاع كرنا چاہيے، اور اگر وہ حملہ آور كو قتل كيے بغير دفاع نہيں كر سكتا تو حملہ آور كو قتل كرنا بھى جائز ہے.
اور اس صورت ميں نہ تو قصاص ہوگا، اور نہ ہى ديت، اور نہ كفارہ؛ كيونكہ شريعت نے اسے قتل كرنے كى اجازت دى ہے، اور حملہ آور مقتول كو جہنم كى آگ كى وعيد سنائى گئى ہے، اور جس پر حملہ كيا گيا ہے اگر وہ دفاع كرتے ہوئے قتل ہو گيا تو ان شاء اللہ وہ شہيد ہے، اس ميں كوئى فرق نہيں كہ حملہ آور مسلمان ہے يا كافر.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر كوئى شخص آكر ميرا مال چھيننے كى كوشش كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اسے اپنا مال مت دو "
اس شخص نے كہا: اگر وہ مجھ سے لڑائى كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اس سے لڑو "
اس شخص نے عرض كيا: اگر وہ مجھے قتل كر دے تو ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تو پھر تم شہيد ہو "
وہ شخص كہنے لگا: آپ مجھے يہ بتائيں كہ اگر ميں اسے قتل كر دوں تو ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ آگ ميں ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 140 ).
اور سعيد بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص اپنا مال بچاتے ہوئے قتل ہو گيا وہ شہيد ہے، اور جو شخص اپنے اہل و عيال كو بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہيد ہے، اور جو شخص اپنا دين بچاتے ہوئے قتل ہو گيا وہ شہيد ہے، اور جو شخص اپنا خون بچاتے ہوئے قتل ہو گيا تو وہ شہيد ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1421 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 4095 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4772 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 708 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سنت اور اجماع اس پر متفق ہيں كہ اگر مسلمان حملہ آور كو بھى قتل كے بغير اپنے سے دور نہ كيا جا سكے تو اسے قتل كر ديا جائيگا، اگرچہ وہ مال جسے چھيننا چاہتا ہے دينار كا ايك قيراط ( يعنى تھوڑا سا ) ہى كيوں نہ ہو، جيسا كہ صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم كا فرمان ہے:
" جو شخص اپنا مال بچاتے ہوئے قتل ہو گيا وہ شہيد ہے، اور جو شخص اپنے اہل و عيال كو بچاتے ہوئے قتل ہوا وہ شہيد ہے، اور جو شخص اپنا دين بچاتے ہوئے قتل ہو گيا وہ شہيد ہے، اور جو شخص اپنا خون بچاتے ہوئے قتل ہو گيا تو وہ شہيد ہے "
…. اس ليے كہ حملہ آور اور زيادتى كرنے والوں سے لڑائى كرنا سنت اور اجماع سے ثابت ہے " انتہى. بتصرف.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 28 / 540 – 541 ).
اور جس شخص كى جان، يا اس كى عزت پر حملہ آور حمل كرے مثلا كسى كى ماں، يا بہن، يا بيٹى، يا بيوى، يا مال پر چاہے وہ آدمى ہو يا جانور وغيرہ تو جس شخص پر حملہ كيا گيا ہے اسے سہل ترين طريقہ سے اپنا دفاع كرنے كا حق حاصل ہے جس كے متعلق اس كے ذہن ميں ہو كہ وہ اس طرح اپنا دفاع كر سكتا ہے، اور جب سہل اور آسان طريقہ سے دفاع ہو سكتا ہو اور حملہ آور كو بھگايا جا سكے تو پھر صعب اور مشكل طريقہ اختيار كرنا حرم ہے كيونكہ اس كى ضرورت نہيں رہى.
اور اگر قتل كيے بغير حملہ آور وہاں سے نہيں جاتا تو جس پر حملہ كيا گيا ہے اسے حق حاصل ہے كہ وہ حملہ آور كو قتل كر دے، اور اس پر كوئى ضمان نہيں، كيونكہ اس نے اس كے شر سے بچتے ہوئے قتل كيا ہے " انتہى.
ديكھيں: الروض المربع صفحہ نمبر ( 677 ).
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
اور اگر كوئى شخص كسى پر حملہ آور ہو كر اسے قتل كرنا چاہے، يا اس كى عزت مثلا اس كى ماں، يا بيٹى، يا بہن، يا بيوى پر حملہ آور ہو يا ان كى عزت تار تار كرنا چاہے، يا اس كے مال پر حملہ آور ہو كر مال چھيننا يا اسے ضائع كرنا چاہے؛ تو اسے حملہ آور كو ايسا كرنے سے روكنے كا حق حاصل ہے، چاہے حملہ آور كوئى شخص ہو يا جانور، تو وہ اسے اپنے خيال كے مطابق سہل اور آسان ترين طريقہ سے روكے.
كيونكہ اگر وہ اسے ايسا كرنے سے منع نہيں كريگا تو وہ اسے ضائع كر دےگا، اور اس كى جان و مال اور عزت ميں اذيت سے دوچار كريگا؛ اور اس ليے بھى كہ اگر يہ جائز نہ ہوتا تو لوگ ايك دوسرے پر تسلط قائم كر ليتے، اور اگر حملہ آور كو قتل كيے بغير روكا نہ جا سكتا ہو تو اسے قتل كرنے كا بھى حق حاصل ہے، اور وہ حملہ آور كا ضامن نہيں ہوگا؛ كيونكہ اس نے اس كے شر سے محفوظ رہنے كے ليے حملہ آور كو قتل كيا ہے، اور جس شخص پر حملہ كيا گيا ہے وہ قتل ہو جائے تو وہ شہيد شمار ہو گا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس شخص كا ناحق مال چھينا جائے اور وہ اسے بچانے كى كوشش ميں لڑے اور قتل كر ديا جائے تو وہ شہيد ہے "
اور مسلم وغيرہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اگر كوئى شخص آكر ميرا مال چھيننے كى كوشش كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اسے اپنا مال مت دو "
اس شخص نے كہا: اگر وہ مجھ سے لڑائى كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اس سے لڑو "
اس شخص نے عرض كيا: اگر وہ مجھے قتل كر دے تو ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تو پھر تم شہيد ہو "
وہ شخص كہنے لگا: آپ مجھے يہ بتائيں كہ اگر ميں اسے قتل كر دوں تو ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ آگ ميں ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 140 ).
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 2 / 443 ).
جس شخص پر حملہ آور نے حملہ كيا ہے اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ حملہ آور كو قتل كرنے ميں جلدبازى سے كام لے، بلكہ جب اسے منع كرنے اور روكنے كے سب ذرائع اور وسائل ختم ہو جائيں مثلا اسے اللہ كا ڈر اور خوف اور اس كے عذاب سے دھمكايا جائے، اور لوگوں سےمدد طلب كى جائے، يا امن و امان كے تمام وسائل سے تعاون بھى لے ليا جائے، ليكن حملہ آور پھر بھى باز نہ آئے تو اسے قتل كر ديا جائيگا، اور اگر يہ خدشہ ہو كہ حملہ آور اسے قتل كر دےگا تو پھر حملہ آور كو قتل كرنےميں پہل كرنى چاہيے.
قابوس بن مخارق اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ و سلم كے پاس آ كر كہنے لگا:
ايك شخص آكر ميرا مال چھيننا چاہتا ہے.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسے اللہ كى ياد دلاؤ "
وہ شخص كہنے لگا: اگر وہ اللہ كے ياد دلانے سے نہ ركے تو ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنے ارد گرد موجود مسلمانوں سے مدد طلب كرو "
وہ شخص كہنے لگا: اگر ميرے ارد گرد كوئى مسلمان شخص نہ ہو تو؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" تو حكمران سے مدد طلب كرو "
وہ كہنے لگا: اگر حكمران مجھ سے دور ہو تو ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنا مال بچانے كے ليے لڑو حتى كہ تم آخرت كے شہداء ميں سے ہو جاؤ، يا پھر اپنا مال بچا لو "
سنن نسائى حديث نمبر ( 4081 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
دوم:
يہ تو اس وقت ہے جب كسى دليل مثلا گواہى كے ساتھ ثابت ہو جائے كہ اس نے اپنا دفاع كرتے ہوئے قتل كيا ہے، يا پھر مقتول كے ولى اس كى تصديق كرديں كہ اس نے اپنا دفاع كرتے ہوئے قتل كيا ہے، يا اس كے قوى قرائن مل جائيں كہ دفاع كرتے ہوئے قتل ہوا ہے، مثلا اگر مقتول شر و فساد مچانے ميں معروف ہو، اور مثلا اس نے لوگوں كے سامنے اسے قتل كرنے كى دھمكى دے ركھى ہو.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر اس شخص نے قتل كا اعتراف كرتے ہوئے يہ دعوى كيا كہ اس نے اپنا دفاع كرتے ہوئے اسے قتل كيا ہے، اور مقتول كے ولى اس كى تصديق نہ كريں، تو قصاص واجب ہے.
الانصاف ميں ہے:
يہى مذہب ہے، اور اصحاب بھى اس پر ہى ہيںن، ليكن اگر مقتول شخص حملہ كرنے، اور فساد مچانے ميں معروف ہو، اور قاتل كے دعوى كے قرائن بھى وہاں موجود ہوں، تو " الانصاف " ميں كہا ہے:
" الفروع " ميں كہا گيا ہے: اور فساد مچانے ميں معروف شخص كے متعلق عدم قصاص كى توجيہ ہوگى.
ميں كہتا ہوں، اور صحيح بھى يہى ہےن اور قرائن پر عمل كيا جائيگا " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن ابراہيم ( 11 / 255- 256 ).
تو اس بنا پر اگر آپ كے والد نے اس شخص كو اپنا دفاع كرتے ہوئے قتل كيا تھا تو آپ كے والد پر كچھ لازم نہيں آتا، نہ تو كفارہ اور نہ ہى ديت لازم آئيگى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب