اگر کوئی عورت فوت ہو جائے، اور اس نے اپنی زندگی میں ایک سے زائد شادیاں کی ہوں تو جنت میں کس کے ساتھ ہوگی؟
جس خاتون کی زندگی میں ایک سے زائد خاوند گزرے ہوں ،تو جنت میں وہ کس کے ساتھ ہوگی؟
سوال: 8068
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس مسئلہ کے بارے میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:
1- ایسی خاتون اپنے ساتھ سب سے اچھے سلوک کرنے والے خاوند کے ساتھ ہوگی۔
2- ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
3- وہ سب سے آخری خاوند کی بیوی ہوگی۔
اس بارے میں قریب ترین، اور صحیح ترین قول آخری قول ہی ہے، اسی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع حدیث بھی ملتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس کسی خاتون کا خاوند فوت ہو جائے، اور وہ اس کے بعد آگے شادی کر لے تو وہ [آخرت میں] آخری خاوند کیلئے ہوگی) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع: (2704) اور "سلسلہ صحیحہ": (1281) میں صحیح قرار دیا ہے۔
یہ تو ہے مختصر جواب، جبکہ تفصیلی اور مذکورہ بالا اقوال کے دلدئل درج ذیل ہیں:
پہلے قول کے دلائل:
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر بن نجاد نے ذکر کیا ہے کہ ہمیں جعفر بن محمد بن شاکر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبید بن اسحاق عطار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں سنان بن ہارون نے حمید سے اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ایک عورت کے دنیا میں دو خاوند ہو، اور پھر وہ فوت ہو کر تمام جنت میں اکٹھے ہو جائیں تو ان دونوں میں سے کس کے پاس جائے گی؟ پہلے خاوند کے پاس یا دوسرے کے پاس ؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ام حبیبہ! جو اس خاتون کیساتھ اچھے سلوک کے ساتھ رہتا ہو گا اسی کے پاس جائے گی، حسن خلق دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹ لیتا ہے)"
" التذكرة في أحوال الموتى والآخرة " ( 2 / 278 )
میرے مطابق یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اور اس کے ضعیف ہونے کی دو وجوہات ہیں:
عبید بن اسحاق عطار، اور سنان بن ہارون۔
عبید بن اسحاق عطار: سخت ترین ضعیف راوی ہے، جبکہ سنان بن ہارون: ضعیف ہے۔
٭ائمہ کرام کے اقوال:
یحیی بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: " عبيد بن إسحاق العطار : لا شيء " [عبید بن اسحاق عطار کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے]
ابو حاتم رازی کہتے ہیں: " ما رأينا إلا خيراً ! وما كان بذاك الثبت ، في حديثه بعض الإنكار" [ہمیں اس میں اچھائی ہی نظر آئی، لیکن حافظہ کوئی پائیدار نہیں تھا، اور اس کی احادیث میں کچھ نہ کچھ منکر باتیں ہیں]
" الجرح والتعديل " ( 5 / 401 )
جبکہ امام نسائی کی کتاب: " الضعفاء والمتروكين " ( صفحہ: 72 ) میں ہے کہ: "متروك الحديث" [یعنی: اس کی احادیث کو ترک کر دیا گیا ]
امام ذہبی کہتے ہیں:
اسے یحیی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " عنده مناكير " [یعن: اس کے پاس منکر روایات ہیں]۔
ازدی کہتے ہیں: "متروك الحديث" [یعنی: اس کی احادیث کو ترک کر دیا گیا ]
دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
ابو حاتم نے اس کے بارے میں اظہار رضا مندی کیا ہے!
جبکہ ابن عدی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: " عامَّة حديثه منكر " [یعنی: اسکی عموماً احادیث منکر ہیں]
" ميزان الاعتدال " ( 5 / 24 )
اور ابن عدی رحمہ اللہ نے "الکامل "(5/347) میں اسی حدیث کو اس راوی کی منکر روایات میں ذکر کیا ہے، اور پھر کہا:
"اس کی روایت کردہ مرویات یا تو سند کے اعتبار سے منکر ہوتی ہیں، یا پھر متن کے اعتبار سے منکر ہوتی ہیں"
٭ جبکہ سنان بن ہارون کے بارے میں یہ ہے کہ:
ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: " منكر الحديث جدّاً ، يروي المناكير عن المشاهير …" [سنان سخت منکر الحدیث ہے، بلکہ مشہور محدثین سے منکر روایات نقل کرتا ہے]
یحیی بن معین کہتے ہیں کہ: " ليس حديثه بشيء " [سنان بن ہارون برجمی، کی احادیث کچھ حیثیت نہیں رکھتیں]
" المجروحين " ( 1 / 354 )
جبکہ عقیلی نے سنان کو " الضعفاء " ( 2 / 171 ) میں نقل کرنے کے بعد اس کی یہی حدیث وہاں ذکر کی ہے۔
چنانچہ مذکورہ بالا تفصیل کے بعد اس حدیث سے استدلال کرنا بالکل درست نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے، چنانچہ پہلا قول ساقط ہو گیا۔
دوسرے قول کے دلائل:
یعنی: ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
مجھے اس قول کے قائلین کی کوئی دلیل نہیں ملی۔
تاہم " التذكرة في أحوال الموتى والآخرة " ( 2 / 278 ) میں صاحب کتاب نے یہی مسئلہ ذکر کرنے کے بعد کہا: "یہ بھی کہا گیا ہےکہ : اگر اسکا [دوسرا] خاوند ہو اتو ایسی خاتون کو اختیار دیا جائے گا" انتہی
عجلونی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی خاتون زیادہ اچھے اخلاق والے خاوند کیساتھ ہوگی! اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : خاتون کو ہر دو میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا اختیار دیا جائے گا"
" كشف الخفاء " (2 / 392)
اسی موقف کو ابن عثیمین حفظہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، جیسے کہ آپ کے فتاوی: (2/53) میں یہ بات موجود ہے۔
تیسرے قول کے دلائل:
اس موقف کے قائلین کے پاس متعدد دلائل ہیں:
1- امام طبرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"3130: ہمیں بکر نے حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں ہمیں محمد بن ابو السری عسقلانی نے بیان کی، وہ کہتے ہیں ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث بتلائی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو بکر بن عبد اللہ بن ابو مریم نے بیان کی انہوں نے عطیہ بن قیس کلاعی سے بیان کیا کہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے ام درداء رضی اللہ عنہا کو انکے خاوند ابو درداء کی وفات کے بعد شادی کا پیغام بھیجا، تو ام درداء رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا: "میں نے ابو درداء سے یہ سنا تھا کہ وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جو کوئی بھی عورت اپنے خاوند کے فوت ہو جانے کے بعد شادی کر لے تو وہ [قیامت کے دن]اس کے (آخری خاوند) کیلئے ہوگی" اور میں ابودرداء پر آپکو ترجیح نہیں دے سکتی" تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے انکی طرف جوابی پیغام میں لکھا کہ: "آپ پھر پابندی سے روزے رکھیں، اس سے شہوت کمزور رہے گی"
" المعجم الأوسط " ( 3 / 275 )
میں یہ کہتا ہوں کہ: اس حدیث میں بھی دو کمزوریاں ہیں: ایک تو ابو بکر بن ابو مریم ضعیف ہے، اور اسی طرح ولید بن مسلم کی سند میں سماعتِ حدیث کی صراحت نہیں ہے۔
اس حدیث کے بارے میں علمائے کرام کے اقوال:
ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر بن ابو مریم شام کے بہترین افراد میں شمار ہوتے تھے، لیکن انکا حافظہ بہت ہی کمزور تھا، جب کوئی حدیث بیان کرتے تو اس میں وہم کھا جاتے تھے، تاہم انہیں شدید قسم کے وہم کا سامنا نہیں تھا کہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دیا جائے، اور نہ ہی اتنا مضبوط حافظہ تھا کہ انکی ہر بات کو دلیل بنایا جا سکے، پھر بھی میرے نزدیک آپ جب کسی روایت کو نقل کرنے میں منفرد ہوں تو حجت نہیں ہیں"
" المجروحين " ( 3 / 146 )
ولید بن مسلم کی تدلیس بہت ہی مشہور ہے، ولید "تدلیس تسویہ" کیا کرتے تھے، جس کا مطلب ہے کہ دو ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو گرا دینا، اسی لئے اہل علم نے اس قسم کے روایوں کے بارے میں ان سے اوپر سند کے تمام طبقات میں سماعتِ حدیث کی ٹھوس لفظوں میں صراحت کرنے کی شرط لگائی ہے، اگر یہ شرط پائی جائےتو انکی روایت قبول ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔
دیکھیں: " التبیین لاسماء المدلسین" از: سبط ابن عجمی( صفحہ: 235 ) اور اسی طرح " طبقات المدلسین"از: حافظ ابن حجر ( صفحہ: 51 )
2- امام ابو الشیخ اصبہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں احمد بن اسحاق جوہری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن زرارہ نے حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو ملیح رقی نے حدیث بیان کی، انہوں نے میمون بن مہران سے اور انہوں نے ام درداء رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: ([قیامت کے دن]عورت اپنے آخری خاوند کیلئے ہوگی)"
" طبقات المحدثين بأصبهان " ( 4 / 36 )
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے رواۃ مشہور ثقہ راوی ہیں، صرف احمد بن اسحاق جوہری کے حالات زندگی نہیں ملے، تاہم ابو الشیخ [مؤلف] نے خود ہی اس حدیث کو انکی حسن احادیث میں شمار کیا ہے۔
اور اگر حقیقت بھی ایسے ہی ہے تو یہ سند اس مسئلہ کے بارے میں اعلی ترین سند ہوگی۔ واللہ اعلم
3- خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"4803: سمرہ بن حجر ابو حجر خراسانی
"انبار "جگہ پر پر قیام کیا، اور وہاں پر حمزہ بن ابو حمزہ نصیبی ، عمار بن عطاء خراسانی، اور ربیع بن بدر سے روایات بیان کیں۔
ان کے شاگردوں میں اسحاق بن بہلول تنوخی ہیں۔
[ان میں سے یہ ایک روایت ہے]ہمیں علی بن ابو علی کہتے ہیں کہ ہمیں ابو غانم محمد بن یوسف ازرق نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ میرے داد نے مجھے حدیث سنائی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سمرہ بن حجر ابو حجر خراسانی نے حمزہ نصیبی سے روایت بیان کی، انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ([قیامت کے دن] عورت اپنے آخری خاوند کی ہوگی)"
" تاريخ بغداد " ( 9 / 228 )
میں کہتا ہوں کہ: یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اس میں حمزہ نصیبی نامی روای سخت ضعیف ہے۔
اس کے بارے میں علمائے کرام کے اقوال:
امام نسائی کہتے ہیں کہ: "متروك الحديث" [یعنی: اس کی احادیث کو ترک کر دیا گیا ]
" الضعفاء والمتروكين " ( ص 39 )
ابن الجوزی کہتے ہیں:
"امام احمد نے کہتے ہیں: یہ " مطروح الحديث " [یعنی: انکی حدیث چھوڑ دی گئی]
یحیی کہتے ہیں: "ليس بشيء ليس يساوي فلسا" اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، ایک ٹکے کا آدمی نہیں ہے۔
بخاری اور رازی کہتے ہیں کہ: " منكرالحديث "
امام نسائی اور دارقطنی کہتے ہیں کہ: "متروك الحديث" [یعنی: اس کی احادیث کو ترک کر دیا گیا ]
ابن عدی کہتے ہیں کہ: "يضع الحديث" [یعنی: وہ احادیث گھڑتا تھا]
ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: ثقہ راویوں کی طرف نسبت کر کے موضوع روایات بیان کرتا ہے، جیسے کہ اس کا کام ہی یہی ہو، اس سے روایت کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے"
" الضعفاء والمتروكين " از: ابن جوزی ( 1 / 237 )
4- بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں خبر دی محمد بن عبد اللہ الحافظ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث سنائی ابو عباس محمد بن یعقوب نے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث سنائی یحیی بن ابو طالب نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی اسحاق بن منصور نے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث سنائی عیسی بن عبد الرحمن سلمی نے، انہوں نے ابو اسحاق سے، انہوں نے صلہ سے، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ، ایک بار حذیفہ نے اپنی بیوی سے کہا: "اگر تم چاہتی ہو کہ جنت میں بھی میری بیوی بنو، تو میرے بعد دوسری شادی مت کرنا؛ کیونکہ جنت میں عورت اپنے آخری خاوند کیساتھ ہوگی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں پر آپ کے بعد نکاح کرنے کی پابندی لگائی، تا کہ وہ تمام جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہوں"
سنن بیہقی: (7/69)
میں کہتا ہوں کہ : اس کی سند میں ابو اسحاق سبیعی ہے جو کہ مدلس بھی ہے، اور اسکا حافظہ کمزور ہوگیا تھا، چنانچہ یہ اثر ضعیف ہوگا۔
ابو اسحاق سبیعی کے بارے میں علمائے کرام کے اقوال دیکھنے کیلئے آپ رجوع کریں:
" من رمي بالاختلاط " از: طرابلسی ( ص 64 ) اور " طبقات المدلسين " از: ابن حجر ( ص 42 )
نیز اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "سلسلہ صحیحہ " (1281)میں ضعیف قرار دیا ہے۔
5- ایک اثر ہے جسے ابن عساکر نے ( 19 / 193 / 1 ) عکرمہ سے بیان کیا ہے کہ:
"اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا زبیر بن عوام کے عقد میں تھیں، زبیر آپ پر بہت گراں تھے، تو انہوں نے آکر اپنے والد [ابو بکر] سے اس بات کی شکایت کی، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: "بیٹی صبر کرو! کیونکہ جب عورت کا خاوند اچھا ہو، اور وہ فوت ہو جائے، پھر عورت بھی اس کے بعد کہیں اور شادی نہ کرے تو انہیں جنت میں بھی اکٹھا کر دیا جائے گا"
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اس اثر کے تمام راوی ثقہ ہیں، تاہم اس میں انقطاع ہے، کیونکہ عکرمہ نے ابو بکر کا زمانہ نہیں پایا، تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ عکرمہ نے یہ بات اسماء بنت ابی بکر سے سنی ہو۔ واللہ اعلم"
"سلسلہ صحیحہ" (3/276)
خلاصہ یہ ہوا کہ:
– یہ کہنا کہ: ایسی خاتون اپنے ساتھ سب سے اچھے سلوک کرنے والے خاوند کے ساتھ ہوگی، اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔
– یہ کہنا کہ: ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا، جس کے ساتھ مرضی رہے، یہ بے بنیاد اور بے دلیل بات ہے۔
– اور یہ کہنا کہ عورت اپنے دنیاوی آخری خاوند کے ساتھ ہوگی، یہی موقف درست حق کے قریب ہے، کیونکہ ام درداء رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت حسن درجے کی ہوسکتی ہے، مزید برآں اس حدیث کو حذیفہ اور اسماء کی موقوف روایات کی تائید بھی حاصل ہے، جو کہ دونوں ہی مرفوع روایت کو تقویت بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور ان دونوں آثار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس موقف کیلئے معتبر دلیل کا وجود پایا جاتا ہے، ویسے بھی علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے مرفوع حدیث کو "سلسلہ صحیحہ" (1281) میں صحیح قرار دیا ہے۔
– بہر حال یہ موقف ہمارے ہاں ذاتی رائے سے زیادہ مقام رکھتا ہے۔
واللہ اعلم
وصلِّ اللهم على محمد وعلى آله وصحبه وسلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد